کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 24
کیا جاسکتا ہے۔(اصول ومبادی،ص۱۵،۱۶)
جواب:۔
جب غامدی صاحب کا خود کا کلام آپس میں متعارض ہے تو اس پر کیسے اعتبار کیا جاسکتا ہے رہی بات کلام عرب کی کہ اسی پر قرآن کے بعد اعتماد کیا جاسکتا ہے تو یہ غامدی صاحب کی اپنی سوچ ہے جس کو وہ ائمہ لغت وادب کے اتفاق کا نام دے رہے ہیں بلکہ قرآن مجید کے بعد زبان کی تحقیق میں دوسرے درجے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور یہی اہل علم لغت وادب کا قول ہے دیکھئے(المزہر فی علوم اللغۃ للسیوطی جلد۱صفحہ۸۸)
ڈاکٹر محمد التونجی اپنی کتاب(المعجم المفصل فی تفسیر غریب الحدیث صفحہ ۵)میں فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث فصیح ہے اور اللہ کے کلام کے بعد سب سے سچی زبان ہے۔پھر تیسرے نمبر پر کلام عرب ہے جس سے لغت میں استشھاد کیا جاسکتا ہے۔آگے غامدی صاحب نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ’’خزانۃ الادب ‘‘کے حوالے سے لکھا ہے ’’جس کلام سے زبان کے معاملے میں استشہاد کیا جاتا ہے اس کی دو قسمیں ہیں ایک شعرکی صورت اور دوسرا جو شعر کی صورت میں نہیں ہے۔ان میں سے پہلی قسم کو اہل علم نے چار طبقات میں تقسیم کیا ہے پہلا طبقہ اسلام سے پہلے کے شعراء جاہلیت کا ہے جیسے ’’امرؤالقیس اور اعشی۔‘‘دوسرا’’ مخضرمین ‘‘جنہوں نے اسلام اور جاہلیت دونوں کا زمانہ پایا ہے۔جیسے لبید اور حسان۔۔۔۔۔۔۔ان دونوں طبقات کے بارے اجماع ہے کہ ان کے اشعار سے استشہاد کیا جائے گا۔‘‘(۱/۳)(اصول و مبادی،ص۱۷)اس سے صرف یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ کلام عرب(شعر جاہلیت وغیرہ)سے استشھاد کیا جائے گا نہ کہ اس بات پر اجماع ہے کہ بعد از قرآن یہی کلام پر اعتماد ہے۔اور پھر غامدی صاحب نے آگے اپنے موقف کی تائید میں تفسیر بیضاوی کے حوالے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ’’تم لوگ اپنے دیوان کی حفاظت کرتے رہو گمراہی سے بچے رہو گے،لوگوں نے پوچھا ہمارا