کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 23
کاتب کو بلوا کر وہ احادیث دوبارہ املا کر وادیں۔خلیفہ نے اس کتاب کا تقابل جب سابقہ کتاب سے کیا تو اس میں ایک حرف کی چوک واقع نہیں ہوئی تھی۔(تذکرۃ الحفاظ،ج۱،ص۱۳۷) اور اگر روایت حدیث میں کوئی لفظی بھول چوک محسوس کی یعنی یہ شبہ ہوا کہ یہ لفظ بیان فرمایا تھا یا یہ لفظ۔تو بجائے کسی ایک لفظ نقل کرنے کے وہ دونوں الفاظ ہی نقل فرمادئیے۔باوجود اس کے کہ وہ دونوں الفاظ ہم معنی مترادف تھے۔مثلا ایک روایت میں راوی کو شبہ ہوا کہ حدیث میں لفظ مومن آیا ہے یا موقن تو راوی حدیث نے شبہ کو بالکل ختم کردینے کے لئے دونوں الفاظ کو نقل کردیا۔حالانکہ دونوں الفاظ معناً مترادف ہیں۔اس قدر احتیاط کے باوجود غامدی صاحب کا یہ کہنا کہ اکثر مرویات بالمعنی منقول ہوئیں ہیں کم علمی اور حدیث رسول سے تعصب نہیں تو اور کیا ہے۔آگے غامدی صاحب رقمطراز ہیں’’ اس کے(حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ)بعد اس زبا ن کا سب سے بڑا ماخذ کلام عرب ہے۔‘‘(اصول ومبادی میزان صفحہ ۱۴) اس بات سے ہم بھی متفق ہیں کہ لغت میں قرآن وصحیح حدیث کے بعد کلام عرب کا نمبر آتا ہے۔غامدی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ لغت وادب کہ ائمہ اس بات پر ہمیشہ متفق رہے ہیں کہ قرآن کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے اور جو صحت نقل اور روایت باللفظ کی بناء پرزبان کی تحقیق میں سند وحجت کی حیثیت رکھتا ہے(اصول ومبادی میزان صفحہ ۱۶) غامدی صاحب کے کلام میں تعارض اور ٹکراؤ اصول غامدی:۔ قارئین کرام!ایک جگہ غامدی صاحب فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد یہ زبان حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہ کے ذخائرمیں ملتی ہے اور پھر اس کے بعد کلام عرب میں اور دوسری جگہ کلام عرب(اشعار وغیرہ)کے متعلق فرمارہے ہیں کہ قرآن مجید کے بعد یہی کلام ہے جس پر اعتماد