کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 123
قرآن کا علم زیادہ کون رکھتا تھا امام محمد رحمہ اللہ نے جواب دیا یقینا تمہارے استاد پھر میں نے سوال کیا حدیث کازیادہ علم کون رکھتا تھا تو امام محمد نے جوب دیا تمہارے استاد پھر مین نے اقوال صحابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا اس میں بھی اس طرح اقرار کیا پھر میں نے کہا اب رہ گیا قیاس اور قیاس انہی چیزون پر ہوتا ہے(وفیات الاعیان لابن خلکان تذکرہ امام مالک جلد۴ صفحہ ۱۳۶)معززین اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اصل فقاہت قرآن اور حدیث کے علم ہی کانام ہے حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب(الاحکام فی اصول الاحکام جلد ۴ صفحہ ۱۱۶)نے فقیہ کے لیے جو چیزیں ضروری قرار دی ہیں وہ درج ذیل ہیں (۱)وہ راوی اللہ کے اوامر ونواہی کا علم رکھتا ہو۔(۲)طلب علم کے لیے سفر کرتا ہو(۳)لسان عرب کو جانتا ہو(۴)عربی گرامر کا علم رکھتا ہو۔(۶)سیرۃ الرسول کا جاننے والا ہو۔(۷)مغازی کے بارے میں معلومات رکھتا ہو۔(۸)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کو جانتا ہو۔(۹)تقویٰ وورع کا حامل ہو۔(۱۰)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس لیے جنگ لڑی اور تحلیل دم کے بعد تحریم الدم کا حکم کب دیا اس کا بھی علم رکھتا ہو الحمداللہ یہ تمام معلومات صرف اور صرف قرآن اور حدیث سے اخذ کی جاسکتی ہیں۔تو راوی حدیث ان تمام معلومات کا بیان کرنے والا ہے وہ کس طرح فقیہ نہیں ہوسکتا۔ فقیہ ہونے کی شرط خود بخود ان شرائط میں داخل ہے جو محدثین نے صحیح حدیث کے راوی کے لیے ضروری قرار دئیے ہیں اگر فقاہت نام ہے قرآن وحدیث کے علاوہ دیگرعلوم کا جس طرح مروجہ فقہ کی کتاب میں مذکور ہیں جیسے اگر کتا بکری کے ساتھ جفتی کرے تو اس سے پیدا ہونے والی چیز کا نام کیا ہونا چاہیے اور وہ چیز حلال ہے یا حرام تو ہم علی الاعلان یہ بات کہتے ہیں کہ نہ صحابہ فقیہ تھے اور نہ محدثین۔ اور اگر فقاہت نام ہے قرآن اور حدیث کا تو الحمداللہ تمام صحابہ اور محدثین سب کے سب فقیہ