کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 121
عدالت راوی متضمن ہے فقاہت راوی کو۔راوی حدیث فسق وفجور بدعات اور شرک سے اسی وقت اجتناب کر پائے گا جب اسے دین کی مکمل معرفت ہو اور اسی معرفت کا نام فقاہت ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔’’من یرداللّٰه بہ خیرا یفقہہ فی الدین ‘‘
اللہ تعالٰی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے دین کی فقاہت دیتا ہے۔اور فقاہت نام ہے تحمل حدیث سے لے کر اداء حدیث تک کا۔اس تحمل حدیث سے اداء حدیث تک راوی کا تام الضبط ہونا محدثین کی دوسری بنیادی شرط ہے۔
امام الحافظ بن الحجر العسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ضبط الراوی سے مراد یہ ہے کہ۔’’وھوان یثبت ما سمعہ بحیث یتمکن من استحضارہ متیٰ شائ۔‘‘
ضبط قلبی سے مراد یہ ہے کہ راوی نے جو کچھ سنا ہے اس قدر راسخ ہوجائے کہ وہ جب چاہے اسے اداکردے۔
محدثین نے تام الضبط کی شرط لگاکر مغفَل راوی(یعنی روایت میں زیادہ غلطیاں کرنے والا)سے احتراز کیا ہے محدثین کا یہ اصول رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےاس فرمان سے لیا گیا ہے۔’’ نضراللّٰه امریٔ سمع مقالتی فحفظہا ووعاھا واداھا کما سمعھا‘‘(رواہ بخاری ومسلم)
اللہ تعالٰی تروتازہ رکھے اس شخص کو جس نے میری بات سنی اس کی حفاظت کی اور بعینہ اس کو اس طرح منتقل کیا جس طرح سنا۔تو مندرجہ بالا بحث سے یہ بات ثابت اوراظہر من الشمس ہوتی ہے کہ صحیح حدیث کی سند میں عدالت اور تام الضبط کی جو شرط لگائی گئی ہیں اس میں فقاہت خودبخود شامل ہوجاتی ہے۔
حافظ خطیب البغدادی اپنی شہر ہ آفاق تصنیف الکفایہ فی علم الروایہ میں اپنی سند کے ساتھ