کتاب: اصول ومبادی پر تحقیقی نظر - صفحہ 114
مشروع نہیں ہے۔یا جھلاء قسم کے لوگ اس کو سنت صحیحۃ سمجھنے لگیں۔
ان شرائط پر غور وفکر کرنے کے بعد اندازہ ہوجاتا ہے کہ محدثین نے اس معاملہ میں بھی(جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ تساھل سے کام لیا)کس قدر احتیاط سے کام لیا ہے۔
لہٰذا اب اس اعتراض کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی ہے۔صالحین کی بیان کردہ روایت میں محدثین نے نرمی کا مظاہر ہ کیا۔وللہ الحمد۔
اس بات سے انکار نہیں کہ وضع حدیث کے فتنے سے سب سے زیادہ فائدہ ان گمراہ بدعتی فرقوں نے اٹھایا جو مسلمین کے درمیان پیدا ہوئے مثلاً،زنادقہ۔جھمیہ۔روافض وغیرہ اور موضوع احادیث کو اپنے سیاسی ومسلکی نظریات کی تائید وترویج کے لئے استعمال کیا مگر اس کے باوجود بھی محدثین نے ان ہی بدعتی رواۃ سے احتجاج کیا اور ان کی بیان کردہ احادیث کو صحیح قرار دیا جیساکہ صحیح بخاری میں بعض رواۃ ہیں جوکہ خارجی اور مرجئی ہیں اور صحیح مسلم میں شیعہ رواۃ کی بھرمار ہے۔
(۱) محدثین نے بدعت کے مرتکب رواۃ میں سے صرف ان سے احتجاج کیا ہے کہ جن کی بدعت درجہ تکفیر تک نہیں پہنچتی۔
(۲) بدعتی راوی اپنی بدعت کا پرچار نہ کرتا ہو۔
(۳) روایت کردہ حدیث اسکی بدعت کی تائید میں نہ ہو۔
(۴) اگر بدعتی راوی اپنے مذھب کی تائید میں جھوٹ کو حلال سمجھتا ہو تو اسکی روایت کو قبول نہ کیا گا۔
اب ان کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
محدثین نے بدعت کے دو طبقے رکھیں ہیں۔