کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 9
بچاؤ بن سکتا ہے۔
دوسری مثال امراۃ العزیز کی ہے، جس نے خواہشاتِ نفسانی کا مطیع بن کر یوسفِ صدیق جیسے پاک باز نبی پر جھوٹا الزام لگایا۔ جیل میں بھجوایا اور پھر کبھی بھی اس پر پشیمان نہ ہوئی۔
جب دربارِ شاہی میں تحقیقات ہوئی اور اس کے خلاف جملہ شہادت مکمل ہو گئی اور اسے اقبالِ جرم کے سوا اور کوئی راہ نہ سوجھی تو جھٹ اقرار کر لیا:
﴿وَ مَآ اُبَرِّیُٔ نَفْسِیْ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ﴾ (یوسف: ۵۳)
’’میں اپنے آپ کو بری نہیں ٹھہراتی، نفس تو ضرور بدی پر آمادہ کرنے والا ہے۔ بجز اس کے جس پر میرا رب رحم کرے۔‘‘
آیتِ بالا سے پتا چلتا ہے کہ اخلاقِ رذیلہ سے رہائی اور تباہ کن رذائل سے خلاصی صرف تب ہی مل سکتی ہے جب رحم ربانی دستگیری فرمائے۔ ورنہ انسان نفس امارہ کا غلام انسان، قوائے شہوانی و غضبانی کا غلام انسان تو ہلاکت کے اس گڑھے میں گر رہا ہے، جس کی گہرائی اتھا ہے اور جس کی ظلمت بے انتہا ہے۔
اسم پاک رحیم کے معنی کا تعقل کرنے کے لیے دیکھو اسے کلامِ پاک میں کن کن اسماء کے ساتھ استعمال فرمایا گیا ہے۔
۱:… ﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴾ (الفاتحۃ: ۲)
’’بہت بخشش کرنے والا اور بڑا مہربان۔‘‘
فرمایا گیا ہے اور اس میں رحمتِ عامہ اور رحمِ خاصہ کا اظہار فرمایا گیا ہے۔
۲:… ﴿اِِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَحِیْمٌ﴾ (الحجرات: ۱۲)
’’بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
فرمایا۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے، کہ پشیمان بندہ کی التجا قبول فرمانا، س کے گزشتہ