کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 8
یہ لازم ہے، کہ اسم رحمن کے ساتھ اس کی اپنی خصوصیات سے قلب مسرور، زبان ذاکر، آنکھیں محظوظ اور دماغ مومن مملو ہے۔
اگر اس اسم سے تخلق کی آرزو ہو تو ضرور ہے کہ ہمدردیٔ عامہ اور خیر خواہی تامہ کا خوگر بنے، دل سوزی و شفقت کا آئینہ ہو، تربیتِ ناقصاں اور تعلیمِ جاہلاں کو شیوہ بنائے اور اندریں باب دشمن و دوست سب کے لیے دروازہ کھلا رکھے اور اس طریق میں بھی ﴿وَ رَبُّنَا الرَّحْمٰنُ الْمُسْتَعَانُ﴾ کی نصرت و رعایت کو شمعِ راہ سمجھے۔
اَلرَّحِیْمُ ’’بڑا مہربان‘‘
اَلرَّحِیْمُ - رَحِمَ سے بنا ہے۔ یہ وہ نام ہے، جو رحمن کے ساتھ بہت بڑا تعلق رکھتا ہے۔ رحم کا اطلاق عموماً درماندہ، بے کس، عاجز، ناتواں ، مصیبت رسیدہ پر کیا جاتا ہے اور رحیم وہ ہے جو ایسے بندوں پر التفات کرنے والا، ان کی بگڑی ہوئی کو بنا دینے والا اور ٹوٹی ہوئی کو جوڑ دینے والا ہو۔
ترمذی میں ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَ لَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا))
’’جو کوئی چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، جو بڑے کی توقیر نہیں کرتا، وہ ہم میں سے نہیں ۔‘‘
رحم کے مواقع استعمال معلوم کرنے کے لیے غور کرو کہ نوح علیہ السلام نافرمان پسر کو بلاتے ہیں ، کشتی میں سوار ہونے کی دعوت دیتے ہیں ۔ وہ کہتا ہے میں تو پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا اور بچ رہوں گا۔ اس کے جواب میں نوح علیہ السلام فرماتے ہیں :
﴿لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰہِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ﴾ (ہود: ۴۳)
’’آج کوئی نہیں جو امرِ الٰہی سے کسی کو بچائے ہاں اللہ ہی رحم فرمائے جس پر، وہی بچ سکتا ہے۔‘‘
یہ آیت بتلاتی ہے، کہ غضب الٰہی سے نجات محال ہے۔ ایسے وقت میں صرف اسی کا رحم