کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 6
’’اگر تو ان سے پوچھے، کس نے آسمان سے پانی اتارا؟ پھر زمین کو موت کے بعد اس پانی سے زندہ کیا؟ تو وہ کہہ دیں گے، اللہ نے۔ ۳:… ﴿وَلَئِنْ سَاَلْتَہُمْ مَنْ خَلَقَہُمْ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ﴾ (الزخرف: ۸۷) ’’اگر تو ان سے پوچھے کہ ان کو کس نے پیدا کیا؟ تو کہہ دیں گے اللہ نے۔‘‘ آیاتِ بالا سے ظاہر، کہ کفارِ عرب، خالقِ ارض و سما اور منزل باراں اور خالقِ انسان اللہ ہی کو جانتے تھے مگر وہ اسم رحمن سے ہمیشہ سے انکار ہی کیا کرتے تھے۔ ﴿وَاِِذَا قِیْلَ لَہُمْ اسْجُدُوْا لِلرَّحْمٰنِ قَالُوْا وَمَا الرَّحْمٰنُ﴾ (الفرقان: ۶۰) ’’جب ان سے کہا جاتا ہے کہ رحمن کو سجدہ کرو۔ تب وہ کہتے ہیں کہ رحمن کیا ہوتا ہے۔ (شاید ان کو شک ہوتا ہو گا کہ رحمن بھی کوئی چیز ہو گی)۔‘‘ ﴿وَ ہُمْ بِذِکْرِ الرَّحْمٰنِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ﴾ (الانبیاء: ۳۶) ’’اور یہی تو وہ ہیں جو کہ رحمن کے ذکر سے انکاری ہیں ۔‘‘ ان آیات سے واضح ہوا کہ کفار اسم پاک رحمنذ سے آگاہ بھی نہ تھے اور انکاری بھی۔ اب یہ ثابت ہو گیا کہ اسم رحمن وہ ہے جس سے اسلام ہی نے لوگوں کو وقف کیا۔ بے شک یہ اسلام ہی کے لیے موزوں و شایاں تھا کہ اس دین میں اسم رحمن کا فیضان ہوتا کیوں کہ رحمن رحمت سے مبالغہ کا صیغہ ہے اور رحمت ہی وہ دولت ہے، جس کے دروازے اسالم نے پورے طور پر عالم و عالمیان کے لیے کھول دئیے ہیں ۔ ہاں یہ رحمت ہی ہے جو میاں بیوی کے رشتے کو مضبوط کرتی ہے۔ ۱:… ﴿وَ جَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً﴾ (الروم: ۲۱) ’’اس نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدردی قائم کر دی ہے۔‘‘ ہاں یہ رحمت ہی ہے جو اولاد کو والدین کے سامنے مؤدب و فرماں بردار بنا دیتی ہے۔ ۲:… ﴿وَ اخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ﴾ (بنی اسرائیل: ۲۴) ’’اور عاجزی و محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا۔‘‘