کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 31
صورت میں اور پانچ مقامات پر اسم بَصِیْرٌ کے ساتھ اور ایک مقام ﴿اِنَّہٗ سَمِیْعٌ قَرِیْبٌ﴾ کے طور پر واقع ہوا ہے اور اس سے واضح ہوتا ہے، کہ سَمِیْعٌ بمعنی عَلِیْمٌ یا بمعنی بَصِیْرٌ نہیں ہے بلکہ ہر ایک اسم مستقل ہے اور اپنی خصوصیات کو جداگانہ لیے ہوئے ہے۔
بے شک یہ ضروری تھا کہ قرآنِ پاک ایسے اسماء کے استعمال کے ساتھ ساتھ شائبہ تشبیہ نہ پیدا ہونے دے۔ لہٰذا بندہ کی سماعت کی حقیقت اس طرح پر ظاہر فرما دی۔
﴿ہُوَ الَّذِیْ اَنشَاَ لَکُمْ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ﴾ (المومنون: ۷۸)
’’تمہاری سمع و بصر اسی کی پیدا کردہ ہیں ۔‘‘
﴿اَمَّنْ یَّمْلِکُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ﴾ (یونس: ۳۱)
’’تمہاری سمع و ابصار کا مالک بھی وہی ہے۔‘‘
لہٰذا بندہ کی سماعت کو اللہ تعالیٰ کی صفت سماعت سے کوئی نسبت باہمی نہیں ۔ ہاں سمیع وہی ہے، جو چرند پرند و حوش و درندہ کی بھی سنتا ہے۔ سمیع وہی ہے، کہ کروڑوں اصوات، ہزاروں لاکھوں لغات اور لاتعداد معروضات اس کی سماعت میں خلل انداز نہیں ہو سکتے۔ وہ بے زبانوں کی بھی سنتا ہے اور سب بندوں کی ضروریات کو بھی نافذ (پورا) فرماتا ہے۔
اَلْبَصِیْرُ ’’سب کچھ دیکھنے والا‘‘
بصر سے ہے۔ بصر: اس قوت کو کہتے ہیں ، جو مشہودات کا ادراک کرتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کو جملہ مبصرات و مدرکات و مشہودات کا ادراک حاصل ہے۔ ہاں اس کا بصیر ہونا، صفتِ بصر سے ہے، نہ صرف ادراک ہی سے۔
وہ الوان و اجسام، افعال و اعمال، ہیئات و اشکال کا دیکھنے والا ہے۔ ہر شے جس کا تعلق دید سے ہے، وہ اسے دیکھنے والا ہے۔ آیاتِ ذیل پر غور کرو۔
۱:… ﴿وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ﴾ (آل عمران: ۲۰)
’’اللہ اپنے بندوں کو دیکھنے والا ہے۔‘‘