کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 29
پندرہ مقامات دیگر میں بھی اعلم آیا ہے۔ قرآن مجید میں ﴿عَالِمُ الْغَیْبِ﴾ اور ﴿عَلَّامُ الْغُیُوْبِ﴾ بھی۔ یہ آیات بتلاتی ہیں ، کہ اللہ تعالیٰ دل و سینہ کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اعمالِ انسانی کا علم ہے۔ وہ انسان کے دل اور آنکھ کی خیانت سے واقف ہے۔ زمین کے اندر کے راز، آسمانوں کے اوپر کے اسرار، سب اس کے علم میں ہیں ۔ زمین سے اوپر کو اٹھنے والی چیزیں ۔ اوپر سے نیچے نازل ہونے والی چیزیں ۔ ذرّہ ذرّہ، قطرہ قطرہ اس کے علم میں ہے۔ ذرّہ اور قطرہ کی بھی چھوٹی سے چھوٹی جسامت اس کے علم سے باہر نہیں ۔ گزری ہوئی امتیں ، آنے والی نسلیں سب اس کے علم میں ہیں ۔ جن پاک بزرگوں کو نبوت و رسالت کے مناصب پر ممتاز فرمایا وہ بھی علم الٰہی کا ثمر تھا۔ قرآن مجید بھی علمِ الٰہی سے نازل ہوا۔ قرآن مجید میں ان سینکڑوں پیش گوئیوں کو دیکھو جن میں ملک ملک اور قوم قوم کے عروج و زوال کی اطلاعیں دی گئی ہیں اور وہ پھر پیش گوئیاں اپنے اپنے ملک اور اپنے اپنے زمانہ میں ٹھیک اسی طرح پوری ہوتی رہیں ۔ نزولِ قرآن پاک کے بعد ان میں سے سینکڑوں نے اپنے وقت پر پورا ہونا ہے۔ لوگ اہلِ علم کو دیکھتے ہیں ، لیکن اس علیم سے بے خبر رہتے ہیں ، جس نے علم کو پیدا کیا، جس نے معلومات کو پیدا کیا، جس نے علم و معلومات میں وابستگی دی، جس نے سوچنے والا دماغ، سمجھنے والا دل، سننے والے کان، بولنے والی زبان پیدا کی۔ یہی تو وہ آلات ہیں جن پر وجودِ علم کا انحصار ہے۔ اگر کوئی شخص معالم و معارف حقائق و دقائق میں کوئی حصہ رکھتا ہے، تو وہ ﴿لِمَا عَلَّمْنَاہُ﴾ کی تحت میں ہے اور اگر کوئی شخص کسی غلطی یا جہل میں گرفتار ہے، تو وہ ﴿لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ﴾ کی تحت میں ہے۔ اگر کوئی شخص علم کا جویا ہے تو آستانِ علیم پر جبیں سائی کیا کرے اور اگر کوئی شخص جہل