کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 26
ہے، اور غور سے معلوم ہو جاتا ہے، کہ رب العالمین کی جملہ عطایا و نعم کا مدار اس کی رحمت ہی پر ہے اور رحمت ہی سے صفتِ وہابیت کا ظہور ہوتا ہے۔ اَلرَّزَّاقُ’’بہت بڑا روزی دینے والا‘‘ رزق کے معنی خورد و نوش کی اشیاء مال و متاع وغیرہ ہیں ۔ وہ سب چیزیں جن سے انسان متلذذ اور حسی اور ذہنی طور پر فائدہ حاصل کرتا ہے، رزق میں شامل ہیں ۔ قرآن مجید کی سورۂ ذاریات میں ﴿ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ﴾ (الذاریات: ۵۸) ’’سب کا روزی رساں ، توانائی والا اور زور آور ہے۔‘‘ آیا ہے اور مائدہ و حج اور مومنون و جمعہ میں ﴿خَیْرُ الرَّازِقِیْنَ﴾ آیا ہے۔ بعض اوقات ماں باپ، حاکم، محسن، بادشاہ، کو یہ گمان ہو جاتا ہے، کہ وہ کسی بچہ یا شخص کو رزق دیا کرتے ہیں ۔ اگر ان کو عارضی طور پر ان کے دعویٰ میں سچا سمجھ لیا جائے تب بھی واضح ہو جات ہے، کہ اللہ تعالیٰ کی رزق رسانی بدرجۂ اتم و اکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو دیکھو، کوئی روٹی کا بھوکا ہے، کوئی گوشت کا، کوئی گھاس کا، کوئی ذوق و شوق کا۔ کوئی محبت کا، کوئی ذکر کا، ہر ایک کو رزق پہنچانا اسی رزاقِ مطلق کا کام ہے۔ ایک غذا کے اندر معدہ، اعصاب، شریانیں ، جگر، طحال، قلب و دماغ کے پرورش کرنے والے الگ الگ اجزاء ہیں اور ہر ایک عضو اپنی اپنی غذا کو چوس لیتا ہے اور دوسرے عضو کا حصہ اس کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ ایک ہی جسم کے اندر رزق کی ایسی تقسیم رزاقِ مطلق کے سوا اور کون کر سکتا ہے۔ اس اسم سے تعلق پیدا کرنے والے کو لازم ہے کہ بھوکوں کو روٹی کھلایا کرے اور رمضان شریف میں روزے افطار کروایا کرے۔ اَلْفَتَّاحُ ’’بہت بڑا مشکل کشا‘‘