کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 25
وَہَبَ وَہْبًا سے ہے۔ ہبہ و موہب بھی اسی مصدر سے ہیں ۔ وَہَّاب کے معنی کثیر الہبہ اور دائم العطا ہیں ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہبہ کی حقیقت وہ عطیہ ہے، جو بلا کسی غرض اور امید اور بلا کسی عوض کے ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بادشاہ اور قوم و ملک نے اپنی حدود سے نکال دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اسماعیل و اسحق علیہما السلام کا عطیہ دیا تو انہوں نے ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا تھا: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَہَبَ لِیْ عَلَی الْکِبَرِ اِسْمَاعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ﴾(ابراہیم: ۳۹) ’’حمد اللہ کے لیے ہے جس نے بڑھاپے میں مجھے اسماعیل اور اسحق علیہما السلام عطا کیے۔‘‘ سورۂ انعام و مریم وغیرہ میں بھی اسحق و یعقوب علیہما السلام کی ولادت کا ذکر ہے۔ وہاں بھی اسی لفظ کے ساتھ ہے۔ سورۂ ص میں ہے: ﴿وَوَہَبْنَا لِدَاوٗدَ سُلَیْمَانَ﴾ (صٓ: ۳۰) ’’ہم نے داود علیہ السلام کو سلیمان بخشا۔‘‘ سورۂ ص میں ہے، کہ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جب بار دوم اولاد و اموال عطا فرمایا تو اسے بھی ﴿وَ وَہَبْنَا لَہٗ اَہْلَہٗ وَ مِثْلَہُمْ﴾ (صٓ: ۴۳) ’’اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ کے الفاظ سے بیان فرمایا ہے۔ موسی علیہ السلام کی دعا پر ہارون علیہ السلام کو نبی بنایا تو ﴿وَوَہَبْنَا لَہٗ مِنْ رَّحْمَتِنَا اَخَاہُ ہَارُوْنَ نَبِیًّا﴾ (مریم: ۵۳) ’’ہم نے اپنی رحمت سے اس کے بھائی ہارون کو نبی بطور عطیہ بنایا۔‘‘ نبوت کو ہبۂ ربانی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے بھی بیان کیا گیا ہے۔ ﴿فَوَہَبَ لِیْ رَبِّیْ حُکْمًا﴾ (الشعراء: ۲۱) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی: ﴿رَبِّ ہَبْ لِیْ حُکْمًا﴾ (الشعراء: ۸۳) ان آیات پر غور کرنے سے واضح ہو گا کہ اسم وَہَّاب کے ساتھ رحمت کا ذکر ضروری