کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 24
اتنا ہی غلط ہے، جتنا فرعون کا قول بنی اسرائیل کے مقابلہ میں تھا۔ ایسا دعویٰ تو ذلت و رسوائی اور ہلاکت و تباہی پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ ہاں رب العالمین ہی کو یہ اسم سزاوار ہے، جو ہماری روح اور ہمارے جسم پر پورا غلبہ رکھتا ہے، ہمارا زمین پر چلنا پھرنا، آسمان کے تلے بے فکر رہنا سہنا محض اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان اشیاء سے ہم کو حق تمتع دیا ہے، ورنہ وہی زمین ہم کو اپنا لقمہ بنا سکتی ہے اور وہی آسمان پر کاہ کی طرح ہم کو جلا سکتا ہے۔ مندرجہ ذیل آیات پر غور کرو: ﴿اَمِ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ﴾ (یوسف: ۳۹) ’’یا اکیلا اللہ جو سب پر حکمران ہے۔‘‘ ﴿وَّ ہُوَ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ﴾ (الرعد: ۱۶) ’’وہ تو ایک اور سب کا حاکم ہے۔‘‘ ﴿وَّمَا مِنْ اِِلٰہٍ اِِلَّا اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ﴾ (صٓ: ۶۵) ’’اللہ کے سوا جو ایک اور حاکمِ کل ہے اور تو کوئی بھی معبود نہیں ۔‘‘ ﴿سُبْحٰنَہٗ ہُوَ اللّٰہُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ﴾ (الزمر: ۴) ’’وہ تو پاک ہے، وہی اللہ ہے جو یکتا اور حکمرانِ کل ہے۔‘‘ ﴿وَ بَرَزُوْا لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ﴾ (ابراہیم: ۴۸) ’’سب کے سب اللہ کے سامنے جو یکتا اور سب کا حکمران ہے، حاضر ہوں گے۔‘‘ ﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ لِلَّہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِ﴾ (المومن: ۱۶) ’’آج بادشاہی کس کی ہے؟ اللہ کی ہے، جو واحد اور قہار (سب پر غالب ہے)۔‘‘ اَلْوَہَّابُ ’’سب کچھ عطا کرنے والا‘‘