کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 22
پھل، پھول، رنگت وغیرہ تاثیر بالکل الگ الگ ہے۔ تاثیرات کے لحاظ سے جڑ میں اثر اور ہے۔ پتہ میں اور، اوپر کے حصے کی خاصیت اور ہے۔ اندر کے گودے کی اور میوہ میں خاصیت جدا اور بیج جدا۔
عطر، گوند، عرق بھی ان ہی بوٹیوں سے حاصل ہوتے ہیں ۔ یہ ایسا جنگل ہے جس کی پوری سیر کوئی نہیں کر سکا۔
پھر عالمِ انسان کو لو، وہ سب تفاوت جو حیوانات میں تھی، ملک ملک کے باشندوں کی بناوٹ، خدوخال وغیرہ موجود ہیں ، انسانوں کے ’علوم الالسنہ‘ ایک ایسی شے ہیں جس کی بابت یہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ ’’از علم لغت فرشتہ عاری است‘‘ انسان کی قوت ایجاد و اختراع اس قدر بڑھی ہوئی ہے، کہ جملہ کائنات پر گویا اسی کو تصرفِ تام اور اقتدارِ کلی حاصل ہے۔
پھر روحانیت میں آؤ، تو معلوم ہوتا ہے، کہ دنیا و مافیہا، سب کے سب ایک عالمِ صغیر تھے، عالمِ کبیر تو انسان کا قلب ہے۔ جہاں حقائق و معارف کی نشوونما ہوتی ہے۔ معانی تمثیل اختیار کرتے ہیں ۔ تصورات کو درجۂ تصدیق ملتا ہے۔
یہ نہایت مختصر اشارات ہیں جو عوالم مسکونہ کے متعلق بیان کر دئیے ہیں ۔
کائنات بحور کو اگر بیان کرنا چاہیں اور بعد ازاں علم الافلاک کا اگر ذکر کریں تو بیان اور بھی زیادہ طویل و دقیق ہو جائے۔ ایک طالبِ حق کے لیے تو اس مقام پر سمجھ لینا ہے کہ یہ سب کچھ اَلْخَالِقُ، اَلْبَارِیُٔ، اَلْمُصَوِّرُ کی ادنیٰ قدرتوں کا بیان ہے۔
وہی ہے، جو عدم کو وجود بخشتا ہے، وہی ہے جو جسم کو روح عطا کرتا ہے، وہی ہے جو سب کو اپنی اپنی شکل و صورت میں انفرادی و امتیازی شان بخشتا ہے۔
اَلْغَفَّارُ ’’درگزر اور پردہ پوشی کرنے والا‘‘
غفر کے معنی چھپانا، ڈھانپ دینا ہے۔ غَفَرَ الْمَتَاعَ فِی الْوِعَائِ کپڑے صندوق میں رکھ دئیے۔ غَفَرَ الشَّیِّبَ بِالْخِضَابِ سفید بالوں و خضاب سے چھپا دیا۔