کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 21
’’جس نے پیدا کیا اس یکی جانب رجوع بھی کرو۔‘‘
اَلْمُصَوِّرُ ’’صورتیں بنانے والا‘‘
صورت بنانے والا۔ فرمایا:
﴿یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ﴾ (آل عمران: ۶)
’’ماں کے شکم میں بچہ بنانے والا، جیسی صورت کہ اس نے چاہی۔ گورا، کالا، سالم، ناقص، مرد، عورت وغیرہ وغیرہ۔ سعدی رحمہ اللہ نے خوب ترجمہ کیا ہے:
دہد نطفہ را صورت چوں پری
کہ کرداست برآب صورت گری[1]
دنیا میں جو انسان مصور کہلاتے ہیں ، وہ صورت بنانے والے نہیں ہوتے بلکہ صورت کی نقل اتارنے والے ہوتے ہیں ۔ پھر وہ نقل بھی اصل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی۔ اگر انسان و حیوان یا شجر و حجر کا سایہ نمودار ہو جاتا ہے، تو سورج یا چراغ کی فضیلت کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ ’مصور‘ ہے اور اس نے کروڑوں ، اربوں کھربوں صورتیں بنائی ہیں ۔ بایں ہمہ ہر ایک صورت دوسرے سے بالکل الگ ہے۔ اس تفریق کو اوّل جنس میں پھر نوع میں ، پھر صنف میں پھر افراد میں دیکھو کہ یہ تمام سلسلہ عجائب در عجائب امور پر مشتمل ہو گا۔
عالمِ جمادات کو لو، پتھر ایک جنس ہے اور اس کی قسم میں ہزاروں اقسام سینکڑوں رنگ ہیں ۔ ان کے ہزاروں خواص ہیں ۔ ریتلی پتھری سے لے کر یاقوت، الماس، نیلم تک غور کرتے چلے جاؤ۔ یہ ایک ناپید اکنار سلسلہ ہے۔ کوئلہ، نمک، مٹی کا تیل، ہزاروں معدنیات ہیں ۔
عالمِ نباتات کو لو، زمین پر پھیل جانے والی بوٹیاں ، چھت پر چڑھ جانے والی بیلیں ، زمین سے اوپر اٹھی ہوئی بوٹیا، پودے، درخت کروڑوں اقسام کے ملیں گے۔ کوئی صرف سایہ دیتا ہے، کوئی پھل اور سایہ دونوں ۔ کوئی عمارت کے کام میں بھی آتا ہے۔ ہر ایک کا پتہ،
[1] وہ پانی کے ایک قطرے کو پری جیسی صورت بخشتا ہے، گویا اس نے پانی پر تصویر کشی کی ہے۔