کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 20
﴿وَ ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ﴾ ’’وہ جس نے رات کو بنایا۔‘‘ ﴿الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ﴾ (الملک: ۲) ’’وہ جس نے موت و حیات کو پیدا کیا۔‘‘ ﴿خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّہَا﴾ (الزخرف: ۱۲) ’’جس نے سب کو جوڑا جوڑا بنایا۔‘‘ ﴿وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ﴾ (یٰسٓ: ۷۹) ’’وہ پیدائش کی ہر ایک حالت کا جاننے والا ہے۔‘‘ آیاتِ بالا پر غور کرو کہ مادی و غیر مادی (ہر دو قسم) اشیاء پر خلق کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ہاں خلق کا لفظ کسی مادی شے کو کسی شکلِ خاص میں تیار کرنے پر بھی آتا ہے۔ ﴿اَنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَہَیْئَۃِ الطَّیْرِ﴾ ’’میں تمہارے لیے مٹی سے ایک پرندہ کی مورت سی بناتا ہوں ۔‘‘ انہی معنی کے لحاظ سے ﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ﴾ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ احسن الخالقین بھی ہے اور خالق بھی ہے اور خلاق بھی ہے۔ ہر سہ الفاظ اگرچہ ایک صفتِ خلق سے تعلق رکھتے ہیں ، لیکن ہر ایک میں جداگانہ کیفیت و خصوصیت موجود ہے۔ اَلْبَارِیُٔ ’’جان ڈالنے والا‘‘ بَرَئَ اللّٰہُ الْخَلْقَ بَرْئً اَوْ بُرُوْئًا (باب نَصَرَ یَنْصُرُ) سے ہے۔ اس کے معنی بھی پیدائش کرنے کے ہیں ، مگر اسم لفظ باری خلق حیوانات کے لیے زیادہ مستعمل ہے اور عدم سے وجود میں لانے کے لیے بھی۔ قرآن مجید میں آتا ہے: ﴿تُوْبُوْا اِلٰی بَارِئِکُمْ﴾