کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 18
اور عزیز وہ ہے، جس میں صفاتِ بالا بدرجہ اتم پائی جائیں ۔ کفار نے ایک دیوی کا نام عُزّٰی رکھ چھوڑا تھا۔ یہ نام بھی عزیز ہی کا (یا اَعَزُّ کا) مؤنث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتلایا ہے: ﴿وَلِلَّہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (المنفقون: ۸) ’’عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لیے ہے۔‘‘ نیز بتلایا ہے: ﴿اَیَیْتَغُوْنَ عِنْدَہُمُ الْعِزَّۃَ فَاِنَّ الْعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا﴾ (النساء: ۱۳۹) ’’کیا اہل دنیا ایسے منافقین کے پاس عزت کی تلاش میں ہیں ۔ انہیں معلوم کر لینا چاہیے، کہ عزت اور اس کی جمیع اقسام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔‘‘ اَلْجَبَّارُ ’’سب سے زبردست‘‘ جبر سے ہے۔ جبر کے معنی درستگی ہے ور اس کے مقابلہ میں لفظِ کسر آتا ہے جس کے معنی شکستگی کے ہیں ۔ جب کسی انسان کا نام جَبَّار ہوتا ہے، تو اس کی وجہ تسمیہ اور ہوتی ہے۔ وہ جبار النخل سے بنایا گیا ہے۔ یعنی جو کھجور اتنی بلند ہو، کہ اس پر چڑھنے کا حوصلہ نہ ہو سکے۔ چونکہ سرکش، سنگ دل، بے رحم لوگ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں ، کہ ان سے خلقِ خدا کو آزار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا کرتا اور وہ کسی کا حق اپنے اوپر نہیں سمجھا کرتے۔ اس لیے وہ جبار کہلانے کے سزاوار ہوتے ہیں ۔ سورۂ ہود میں ہے: ﴿وَ اتَّبِعُوْا اَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ﴾ (ہود: ۵۹) سورہ ابراہیم میں ہے: ﴿وَ خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ﴾ (ابراہیم: ۱۵) مومن و مریم، قصص، مائدہ، شعراء میں بھی یہی لفظ ایسے سرکش انسانوں کے متعلق