کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 16
لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا فَاَیُّ الْفَرِیْقِیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَ ہُمْ مُّہْتَدُوْنَ﴾ (الانعام: ۸۱-۸۲)
’’میں تمہارے بتوں سے کیوں ڈروں ۔ تم تو اللہ کیس اتھ شرک کرتے ہوئے بھی نہیں ڈرتے، حالانکہ جو ازِ شرک کی کوئی دلیل بھی کسی آسمانی کتاب میں نہیں ۔ غور کرو اگر تم کو علم ہے تو بتلاؤ، کہ ہر دو میں سے کون زیادہ امن کا حق دار ہے۔ ہاں ایمان والوں ہی کے لیے جو ایمان کو شرک کی آمیزش سے صاف رکھتے ہیں ۔ امن ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہوتے ہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے خلافتِ راشدہ کی علامات میں سے قیامِ امن کا بھی ذکر کیا ہے:
﴿وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا﴾ (النور: ۵۵)
’’ہم نے ان کے خوف کو امن سے بدل دیا۔‘‘
یہ وہی امن ہے، جو دماغ کو انتشارِ خیالات و توہمات سے اور دل کو ہجوم اوہام و وساوس سے اور روح کو اضطرابِ اندرونی سے بچا لیتا ہے۔
﴿وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌ بِہَا﴾
یہ وہی امن ہے، جو جان و مال و حقوقِ عامہ کی حفاظت کرتا ہے، جو تبلیغ کی راہ سے سب رکاوٹوں کو دُور کر دیتا ہے، جو ایمان میں داخل ہونے والوں کی پریشان خیالی کو محو کر دیتا ہے۔
ملکی امن کا ذکر عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں ہے، جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں میں سے ایک یہ بھی فرمائی تھی کہ عدی رضی اللہ عنہ شاید تم کو اسلام میں داخل ہونے سے یہ امر مانع ہے کہ ملک میں امن نہیں ۔ تم عنقریب دیکھ لو گے کہ ایک بڑھیا قادسیہ (حیرہ) سے اکیلی حج کے لیے چلے گی اور وہ اللہ کے سوا راہ میں کسی سے نہ ڈرے گی۔ عدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں اپنی آنکھوں سے ایسا ہی دیکھ لیا۔