کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 13
کے ساتھ رَبُّ الْمَلٰئِکَۃِ وَ الرُّوْحِ کے فرمانے میں حکمت یہ ہے، کہ فرشتے بھی قدسی کہلاتے ہیں ۔ جبرئیل کو بھی رُوْحُ الْقُدُسِ (پاک روح) کہتے ہیں ۔ لہٰذا ایک مسلم کو یہ اعتقاد کر لینا چاہیے، کہ ذاتِ باری تعالیٰ کے تقدس کے معنی صرف اسی قدر نہیں ہیں ، کہ وہ لوازم بشریہ سے پاک و برتر ہے، نہیں اللہ تعالیٰ کی قدوسیت یہ ہے کہ نوری ملائکہ اور پاک روح میں بھی جو نقائص ہیں ، وہ بھی اس کی ذات میں نہیں ۔ روح اور ملائکہ کا مخلوق ہونا، ان کا آغاز و ابتداء، ان کے انجام کی غایت ہی ایسے اوصاف ہیں ، جو ذاتِ سبحانی میں نقص سمجھے جاتے ہیں اور وہ ان سے بھی بالاتر ہے۔
اَلسَّلَامُ ’’بے عیب ذات‘‘
سَلَامٌ بطورِ اسم صرف اللہ جل شانہ کے لیے ہے۔ اس کے معنی سالم ہیں ۔ یعنی وہ جو سلامتی میں کامل ہو۔ وہ جس کی سلامتی معرض خطر و زوال میں نہ ہو۔ وہ جو دوسروں کو سلامتی بخشتا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے:
((اَللّٰہُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ یَا ذَالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ)) (اخرجہ الخمسۃ الا البخاری عن ثوبان رضی اللّٰه عنہ )
ام المومنین خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے حال میں ہے، کہ جبیرئیل علیہ السلام نے ان کو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ کا سلام اور اپنا سلام پہنچایا تو انہوں نے جواب میں کہا:
((اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ السَّلَامُ وَ مِنْہُ السَّلَامُ))
’’یعنی اللہ پاک تو خود سلامتی کا مالک ہے اور ہم کو سلامتی اسی سے ملتی ہے۔‘‘
سلام مصدر بھی ہے، اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی سلام ملے گا۔
﴿سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ﴾ (یٰسٓ: ۵۸)
’’مہربان پروردگار کی طرف سے انہیں سلام کہا جائے گا۔‘‘
﴿سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْہَا خٰلِدِیْنَ﴾ (الزمر: ۷۳)