کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 110
’’اللہ کے ساتھ کسی اور کو الٰہ نہ ٹھہراؤ۔‘‘
لیکن بحالت اثبات بھی اس اسم پاک کا استعمال قرآن حمید میں بکثرت ہوا ہے اور اسی لیے ضروری ہے کہ اسمائے حسنیٰ کے ذیل میں اس کا جداگانہ شمار رکھا جائے۔
﴿وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ﴾ (بقرہ، ابراہیم، نحل)
’’تمہارا تو وہی واحد الٰہ ہے۔‘‘
﴿وَہُوَ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِِلٰہٌ وَفِی الْاَرْضِ اِِلٰہٌ﴾ (الزخرف: ۸۴)
’’وہی ہے جو آسمان میں الٰہ ہے اور جو زمین میں الٰہ ہے۔‘‘
﴿لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ﴾ (الانبیاء: ۸۷)
’’الٰہ تو ہے تیرے سوا اور کوئی الٰہ نہیں ، تو پاک ہے۔‘‘
﴿نَعْبُدُ اِلٰہَکَ وَ اِلٰہَ اٰبَآئِکَ﴾ (البقرۃ: ۱۳۳)
’’تیرے الٰہ کی اور تیرے آباء و اجداد کے الٰہ کی ہم عبادت کیا کریں گے۔‘‘
مبارک ہے وہ انسان جسے اللہ تعالیٰ ایسا فائز المرام فرمائے۔
اَلْعَلَّامُ ’’بہت زیادہ جاننے والا‘‘
اب یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صفت مشبہ یہ ہے کہ جس کا تعلق مطلقاً ذات و صف سے ہوتا ہے اور اس میں زمان و مکاں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اس لیے صفت مشبہ میں استقرار و دوام ہوتا ہے۔
فَعِیْل صفت مشبہ کے اوزان میں سے ہے۔[1] مبالغہ میں موصوف کا اس صفت سے بکثرت موصوف ہونا مراد ہوتا ہے۔ فَعَّال اوزان مبالغہ میں سے ہے اور عَلَّام جو اس کے وزن پر ہے ظاہر کرتا ہے کہ صفت علم کا رب العالمین کی ذات پاک کے ساتھ بکثرت ارتباط ہے۔
[1] سفت مشبہ عموماً ابواب ثلاثی مجرد سے آتی ہے۔ ہاں اگر دلالت فعل کسی رنگ یا عیب یا حلیہ پر ہو تب صفت مشبہ کا بوزن افعل ہونا ضروری ہوتا ہے۔ دیکھو اسود، اعرج، ابلج۔ (ہنس مکھ، پرسکون)