کتاب: اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات - صفحہ 11
’’وہ زبردست رحم کرنے والا ہے۔‘‘ یہ وہ اسناد ہیں ، جو بتلاتی ہیں کہ اس عالم دنیا میں بھی ہمارے مولیٰ کا رحم ہی کارفرما ہے اور اس کے رحم کے بغیر کوئی انسان اس تباہی سے جو ہماری غفلت و نسیان اور خطا و عصیان کا نتیجہ ہے ہرگز ہرگز نہیں بچ سکتا۔ سورۂ اعراف و یوسف و انبیاء میں اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ بھی آیا ہے اور سورۂ مومنون میں خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ بھی۔ اَلَمَلِکُ ’’حقیقی بادشاہ‘‘ حدیث ترمذی میں اَلَمَلِکُ کو اسمائے حسنیٰ میں شمار کیا گیا ہے۔ لغت میں اَلَمَلِکُ بادشاہ کو کہتے ہیں ۔ دنیا میں اور لوگ بھی اَلَمَلِکُ کہلاتے ہیں او یہ نام رکھنا بھی شرک بھی نہیں ۔ قرآن مجید میں بھی اس کا استعمال اور لوگوں کے لیے ہوا ہے: ﴿اِنَّ الْمُلُوکَ اِِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَا اَذِلَّۃً وَّکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ﴾ (النمل: ۳۴) ’’بادشاہوں کا یہ حال ہے، کہ جب کسی نئی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اسے بگاڑ دیتے ہیں ، وہاں کے عزت والے باشندوں کو ذلیل کر دیا کرتے ہیں ، وہ ایسا ہی کریں گے۔‘‘ قرآن مجید پر تدبر کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اَلَمَلِکُ کا اطلاق بحالت مضاف ہوا ہے۔ ﴿مَلِکِ النَّاسِ﴾ اسی کا اسم ہے۔ اس کا معنی ہیں کل بنی نوع انسان کا بادشاہ۔ یہ ظاہر ہے، کہ جملہ انواعِ انسانی کی حکومت اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو بھی حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ سورۂ طہ میں ہے ﴿تَعَالَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ﴾ (طہ: ۱۱۴) ’’پس اللہ تعالیٰ عالی شان والا، سچا اور حقیقی بادشاہ ہے۔‘‘ فرمایا گیا اور ظاہر کیا گیا ہے، کہ ملوکِ دنیا محض ظاہری معنی