کتاب: اسماء الحسنیٰ(عثمان صفدر) - صفحہ 3
1۔اللہ تعالیٰ نے اپنا نام خود رکھا ہے
٭ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے نام خود رکھے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے تمام نام توقیفی ہیں (یعنی اس میں کسی کی رائے کی کوئی گنجائش نہیں ) جوکہ قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں ۔ اللہ کے مبارک نام قرآن مجید کی آیات سے بھی ثابت ہوتے ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ﴾ (الحشر: 24) ترجمہ:’’ وہی ہے اللہ پیدا کرنے والا، وجود بخشنے والا ، صورت بنانے والا‘‘۔ نیز اللہ تعالیٰ کے مبارک نام صحیح احادیث سے بهی ثابت ہوتے ہیں ۔ جیساکہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’إِنَّ اللّٰهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ‘۔ترجمہ:اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اورخوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔(مسلم)
٭ الله کا کوئی بھی ایسا نام جو قرآن مجید میں صرف كسی خاص موقعےپر کسی خاص وجہ سے استعمال ہوا ہو، وہ عمومی طور پر اللہ کا نام نہیں ہوسکتا، جیسا کہ قرآن میں ہے:﴿اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِيْنَ مُنْتَقِمُوْنَ﴾۔ترجمہ: ’’ہم یقینا ایسے مجرموں سے انتقام لے کر رہیں گے‘‘۔(السجدة:22) ’المنتقم‘ جس کا معنی ہے انتقام لینے والا، یہ لفظ ایك خاص وجہ سے خاص موقعہ پر بولا گیا ہے۔
٭ اسی طرح جو نام اسم فاعل کے وزن پر آیا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَالِقُ الْاِصْبَاحِ﴾۔ ترجمہ:’’ صبح کی روشنی کو نکالنے والا‘‘۔ (الانعام:96)
٭ بعض احادیث میں بھی کچھ الفاظ ذکر ہوئے ہیں ، جیسے: الزارع، الذارء ۔ لہٰذا یہ الفاظ اللہ کے مبارک ناموں میں شمار نہیں کئے جاتے۔
٭ ایک ہی صفت کے کئی ناموں کو ایک نام شمار نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں الگ الگ نام شمار کیا جاتا ہے۔ جیسے: القادر، القدیر، المقتدر۔ ان تینوں میں قدرت کی صفت ہے لیکن اس کے باوجود انہیں تین الگ الگ نام ہی شمار کیا جاتا ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ کے جو نام اکٹھے(ایک ساتھ) ذکر ہوئے ہیں انہیں ایک نام کی طرح ایک ساتھ ہی ذکر کرنا چاہئے، الگ الگ ذکر کرنا صحیح نہیں ہے۔ جیسے: القابض الباسط، المقدم المؤخر۔ یہ دو نام ایک ساتھ ہی ذکر ہوئے ہیں اس لئے انہیں ایک ساتھ ہی ذکر کرنا چاہئے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال کے لائق ہے۔