کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 95
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اپنے نفس کو سنت پر صابر و ثابت رکھیں۔اور وہاں رک جائیں جہاں سلف رک گئے تھے۔ اوروہی بات کہیں جو انہوں نے کہا ہے۔ اور جس چیز سے وہ رکے تھے اس سے رک جائیں۔ اور سلف صالحین کے راستہ پر گامزن رہیں۔ بیشک جو چیز انہیں کافی تھی وہی تمہارے لیے بھی کافی ہے۔‘‘ (الشریعہ للآجری:۵۸)
اسلاف کی طرف نسبت رکھنے پر امت کا اجماع ہے۔ یہ اجماع شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے۔(فتاوی ۱؍۸۹)
آپ عز بن عبد السلام رحمہ اللہ کے اس قول(اور کوئی دوسرا سلف کے مذہب کی آڑ لیتا ہے)پر رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
سلف صالحین کی طرف نسبت رکھنے اور ان کا مذہب ظاہر کرنے اور ان کے قول سے تقویت حاصل کرنے میں کوئی عیب کی بات نہیں۔ بلکہ بالاتفاق ان کا قول قبول کرنا واجب ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلف کا مذہب حق کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ان کے قول میں ظاہر و باطن میں موافقت پائی جاتی ہے۔ ان کے اقوال اس مومن آدمی کی طرح ہوتے ہیں جس کے ظاہر و باطن میں موافقت پائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر کوئی چیز ظاہر میں موافق اور باطن میں مخالف ہو تو وہ منافق کی منزلت پر ہوتی ہے۔ پس آپ ظاہر کو قبول کیجیے اور باطن کامعاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کیجیے۔ اس لیے کہ ہمیں لوگوں کے دلوں میں نقب لگانے اور ان کے سینے چاک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ ‘‘
اہل بدعت کی نشانی یہ ہے کہ وہ سلف صالحین کی طرف نسب رکھنے کو نا پسند کرتے ہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اہل بدعت کا شعار سلف صالحین کے طریقہ سے روگردانی ہے۔ ‘‘
میں کہتا ہوں: ’’بعد میں آنے والوں میں سے کسی ایک کو آپ ایسے نہیں پائیں گے جو کہ آج کل میدان میں موجود گروہوں اور فرقوں کی طرف نسبت رکھتاہواوراہل سنت و