کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 92
اور دوسرے لوگ بھی اپنا اپنا نام رکھتے ہیں تو پھر سلفی حضرات اپنا ایسا نام کیوں نہ رکھیں جس کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے ممتاز اور جدا ہوسکیں۔ پس سلفیت صحیح عقیدہ اور سلیم منہج والوں کا ایک جداگانہ نام ہے۔ فتنوں کے ظہور کے بعدابن سیرین فرماتے ہیں: ’’جب فتنے برپا ہوئے تو کہنے لگے :اپنے لوگوں کا کوئی نام رکھو۔‘‘ پس یہاں سے اہل سنت و الجماعت کے نام کی ایجاد ہوئی۔ اور اصول اہل سنت والجماعت کی اصطلاح سامنے آئی۔ پھر اس کے بعد اہل الحدیث اور اہل اثر کی اصطلاح بھی امام احمد رحمہ اللہ کے زمانے میں سامنے آئی۔پھر اس کے بعد سلفیت کی اصطلاح شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے عہد میں سامنے آئی۔ یہ مصطلحات اور ان کے معانی بالکل صحیح ہیں۔ اور ان کی طرف نسبت رکھنے میں کوئی عیب والی بات نہیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو انسان مذہب سلف کااظہار کرے یا اپنے آپ کو اس طرف منسوب کرے یا ان کے ساتھ تعلق رکھے تو اس پر کوئی عیب والی بات نہیں۔ بلکہ بالاتفاق اس دعوت کا قبول کرنا واجب ہے۔ اس لیے کہ سلف صالحین کا مذہب صرف اورصرف حق ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل بدعت کا شعار اس نام کو ترک کرنا اور دوسری راہوں پر چلنا ہے۔ صرف اہل سنت نام رکھنے سے مقصد پورا نہیں ہوسکتا تھا۔ اس لیے کہ اشاعرہ ماتریدیہ اور دیوبندی اور دوسرے منحرف گروہ اور فرقے اپنے آپ کو اپنی اپنی جماعتوں کے ناموں کے ساتھ ساتھ اہل سنت بھی کہلاتے ہیں۔ پس اس لیے اہل حق نے اپنے لیے ایک جداگانہ نام سلفی رکھا۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تمام کتابیں رسائل فتوے اورتحریریں سلفیت کی نصرت کے لیے مسخر تھیں۔ آپ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ انسان جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ سلفیت کے نبوی اور شرعی راستے سے رو گردانی کرتا ہے تو اس کے گمراہ ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں