کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 89
جس کے بارے میں نصوص خاموش ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے وہی اوصاف بیان کرتے ہیں جو کہ خود اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لیے یا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے لیے بیان کی ہیں۔ اور ان جاہلوں کی تاویلات اور اہل باطل منحرف لوگوں کے طریقہ کار کا انکار کرتے ہیں جن کی ترجیح اور اولویت فتنہ ہے۔ اور انہوں نے اپنی خواہشات کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔ اورجو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے بارے میں بغیر علم کے باتیں کرتے ہیں۔ اہل سنت ان کے اس باطل کا رد کرتے ہیں۔اور ان کی گمراہی اور کج روی اور جھوٹ کو واضح کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کرتے ہیں۔ (الصواعق المرسلۃ۱؍۲۶۲،۲۶۳) شیخ بکر أبو زید رحمہ اللہ : آپ فرماتے ہیں: ’’ وہ لوگ جو باطل پر انکار کرنے سے اپنی زبانیں موڑ تے اور دباتے ہیں ان میں اگرچہ خیر کے کچھ پہلو بھی پائے جاتے ہیں مگر ان لوگوں میں بزدلی اور عزائم کی کمزوری پائی جاتی ہے۔ اور کبھی کبھار تو حق تک رسائی حاصل کرنے اور حق کے ادراک میں بھی ان میں بہت کمزوری پائی جاتی ہے۔ حقیقت میں یہ میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا ہے۔اس لیے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کے دین کی حفاظت اور اس کے دفاع کی ضرورت ہوتی ہے وہاں سے یہ لوگ کھسک جاتے ہیں۔ ایسے موقع پر حق بات بیان سے خاموشی اختیار کرنا بالکل اسی طرح ہے جیسے باطل باتیں بیان کرنا ہے۔اور وہ بھی اسی طرح کا گنہگار ہے۔‘‘ ابو علی الدقاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ حق بات بیان کرنے سے خاموش رہنے والا گونگا شیطان ہے۔ اور باطل بیان کرنے والا شیطان ناطق ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے تہتر فرقوں میں افتراق کی خبر دی تھی۔ ان میں سے