کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 83
ایک دوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں اور بغیر کسی کفریہ سبب کے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں۔ اس دینی تفریق اور گروہ بندی کا میں بالکل بھی قائل نہیں۔ بلکہ میری رائے یہ ہے کہ ان تمام گروہوں کوختم کرنا واجب ہے۔ اور ہم سب کو ایسے ہی ایک امت ہوجانا چاہیے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں لوگ ایک جماعت ہوا کرتے تھے۔
اور ہم میں سے جو کوئی عقیدہ یا قول و فعل کی راہ میں خطا کا مرتکب ہو تو ہم پر واجب ہوتا ہے کہ اس کی خیرخواہی کرتے ہوئے حق بات کی طرف اس کی رہنمائی کردیں۔ اگروہ راہ حق پر آجائے تو یہی چیز مطلوب ہے۔ اور اگر حق کسی دوسرے کے پاس ہو تو ہم پر اس کی طرف رجوع کرنا واجب ہو جاتا ہے۔اور اگر حق ہمارے ساتھ ہو اور وہ بلاوجہ اپنی بات پر اصرار کررہا ہو تو اس صورت میں ہم لوگوں کو اس کی رائے اور سوچ وفکر سے آگاہ اور خبردار کریں گے۔ اور یہ نظریہ و عقیدہ رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ایک گروہ ہے اور ہم ایک دوسرا گروہ ہیں۔ اور اس طرح سے ہم امت اسلامیہ کو دو گروہوں میں تقسیم کردیں۔
میری رائے یہ ہے کہ ہمارے لیے ضروری ہے بلکہ ہم پر واجب ہوتا ہے کہ اس گروہ بندی کے خلاف ایک ہوجائیں والحمد للّٰہ (لقاء ات الباب المفتوح)
علامہ شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ :
سوال:.... کیا علماء پر واجب ہوتا ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ان جماعتوں تفرقہ بازی اور دھڑے بندی کے خطرات کو واضح کریں؟
جواب:.... ہاں!گروہ بندی اور تفرقہ بازی کے خطرات کو واضح طور پر بیان کرنا واجب ہوتا ہے تاکہ لوگوں کو بصیرت حاصل ہوسکے۔ اس لیے کہ عوام دھوکا کھا جاتے ہیں۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مختلف جماعتوں سے دھوکا کھایا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہی حق پر ہیں۔
یہ ضروری ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے طلبہ علم اور عوام کے سامنے اس دھڑے بندی اور تفرقہ بازی کے خطرات سے آگاہ کریں۔ اس لیے کہ اگر ہم خاموش رہیں گے تو لوگ سمجھیں گے علمائے کرام ان جماعتوں کے متعلق جانتے تھے مگر پھر بھی ان پر خاموش رہے ۔ تو اس