کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 78
کہتے ہیں :تم داعی ہو۔ اور داعی کی مثال اس بادل کی ہے جو خود لوگوں کی زمینوں پر سے گزرتا ہے اور انہیں سیراب کردیتاہے۔ جب کہ علماء کی مثال اس سے مختلف ہے۔ علماء کی مثال ایک کنویں کی ہے۔ اگر تمہیں کنویں سے ایک میل کے فاصلے پر پیاس لگ جائے تو کنویں تک پہنچنے سے پیاس تمہیں قتل کردے گی۔ اور اگر کنویں پر پہنچ بھی گئے تو اس میں سے پانی نکالنے کے لیے تمہارے پاس ڈول نہیں ہو گا۔اور اگر کوئی نوجوان علماء کے پاس چلا بھی جائے اور ان کی ہم نشینی اختیار کرے تو اسے پھر وہی بات یاد آجاتی ہے جس کا بیج اس کے دل میں بویا گیا ہوتا ہے کہ تم تو بادلوں کی مانند ہو............۔لیکن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے: (( من یرد اللّٰہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین۔)) (رواہ البخاری) ’’ جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو اسے دین کی سمجھ عطا کردیتے ہیں۔‘‘ ہشتم:.... ترک ِ انکار المنکر: یہ اس جماعت کے اصولوں میں سے ایک اصول ہے۔ ان کی دعوت میں برائی کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی دلیل یہ پیش کرتے ہیں کہ ایسا کرنے سے لوگوں میں نفرتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس بنا پر اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ یہ دعوت ناقص اور باطل طریقے پر مبنی ہے۔ اس چیز کا مشاہدہ ہر وہ انسان کر سکتا ہے جو ان کے ساتھ وقت لگائے۔ بلکہ یہ تو اس جماعت کاا یک بنیادی اصول ہے۔اس اصول کی بنیاد یہ جماعت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی خلاف ورزی کررہی ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ﴾(آل عمران:۱۱۰) ’’تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے:تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان لاتے ہو۔‘‘