کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 72
علامہ محمد ابن عثیمین رحمہ اللہ : آپ تبلیغی جماعت کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’وہ دین جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے ہیں۔ اور جس کا بیان حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے جب جبرائیل امین آئے اور انہوں نے اسلام ایمان اور احسان کے بارے میں سوالات کیے۔ میری ان بھائیوں کو نصیحت یہ ہے جنہوں نے اپنی طرف سے کچھ ارکان اور نمبر(چھ نمبر)بنالیے ہیں کہ وہ ان خود ساختہ چیزوں کو چھوڑ کراس منہج پر واپس آجائیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے تھے۔ اور جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین قرار دیا ہے۔ ‘‘ علامہ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ : آپ تبلیغی جماعت کے متعلق فرماتے ہیں: ’’ان لوگوں کا دعوی ہے کہ ان کی دعوت کتاب و سنت پر قائم ہے۔لیکن یہ صرف زبانی دعوی ہے۔حتی کہ ان کے مابین عقیدہ بھی متفق علیہ نہیں۔ان میں سے کوئی ایک اشعری ہے تو دوسرا ماتریدی اور تیسرا صوفی کوئی چوتھا لادین اور لامذہب۔ اس لیے کہ ان کی دعوت کی بنیاد اس چیز پر ہے کہ انہیں کیسے جمع کیا جائے؟(دین وعقیدہ کی کوئی اہمیت نہیں)حقیقت میں ان لوگوں کے پاس کوئی علمی ثقافت نہیں۔ ان لوگوں کو پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے ان میں آج تک کوئی معتبر عالم پیدا نہیں ہوا۔‘‘ آپ نے ان لوگوں کے عقیدہ کی گمراہیاں اور بدعتی تصوف کے طریقے اور لوگوں کے سامنے اختیار کیے جانے والے بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’ تبلیغی جماعت عصر حاضر میں ایک صوفی جماعت ہے۔ جو کہ اخلاقیات کی دعوت دیتے ہیں۔جب کہ معاشرہ میں عقیدہ کی اصلاح کے لیے ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اس لیے کہ ان کے نزدیک ایسا کرنے سے تفرقہ بازی پیدا