کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 43
ہیں۔اور سب سے غریب بات یہ ہے ان میں سب سے بڑا خطرہ ایک اور مکتب فکر کی طرف سے ہے جو کہ سلفیت کا لبادہ پہنے ہوئے ہیں۔‘‘
جب کہ کتاب ’’من ھنا نتعلم‘‘میں یہود و نصاری کے متعلق لکھا ہے:
’’ کچھ بنیادی چیزیں ایسی بھی ہیں جن پر آسمانی مذاہب کی طرف نسبت رکھنے والوں کا ایک نکتہ پر اجتماع واتحاد ممکن ہے۔ یہ نکتہ یہودیت و نصرانیت اور اسلام کو ایک جگہ پر جمع کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ یہ تینوں مذاہب کے ماننے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘
اور اسی کتاب کے ص۵۳پر لکھتا ہے:
’’ ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ہاتھ آگے بڑھائیں اور اپنے دلوں اور کانوں کو ہر اس دعوت کے لیے کھولیں جو مختلف ادیان کے مابین بھائی چارے کے قیام کیلیے لگائی جائے۔ اور انہیں آپس میں قریب کرتی ہو۔ ہمیں اس(دین ابراہیم کی طرف)شریف نسبت کو یاد رکھنا چاہیے۔‘‘
اور غزالی نے کہا ہے(جیسا کہ پہلے گزر چکا):
’’ بیشک میں اپنے دل کی گہرائیوں سے صلیب اور ہلال کے درمیان اتحاد قائم ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جو مصری قوم میں عنصریت پھیلانا چاہتے ہیں ان کے تقوی کا کوئی بھروسہ ہے اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے متلاشی ہیں۔‘‘
اخوان المسلمون کے رہنماؤں اور مرشدین کے کچھ ایسے ہی خیالات ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ان فرمودات کو جان بوجھ کر پس پشت ڈال رہے ہیں۔یہ فرمودات یہ ہیں:
اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَ ہُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾(آل عمران:۸۵)
’’اور جو شخص اسلام (فرمانبرداری)کے سوا کوئی اور دین چاہے تو اس سے ہرگز