کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 39
’’ بیشک میں اپنے دل کی گہرائیوں سے صلیب اور ہلال کے درمیان اتحاد قائم ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جو مصری قوم میں عنصریت پھیلانا چاہتے ہیں ان کے تقوی کا کوئی بھروسہ ہے اور نہ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے متلاشی ہیں۔‘‘ اور اسی کتاب کے صفحہ۶۶پر کہا ہے: ’’اس سابقہ تاریخ کے باوجود ہم چاہتے ہیں کہ اپنے ہاتھ آگے بڑھائیں اور اپنے دلوں اور کانوں کو ہر اس دعوت کے لیے کھولیں جو مختلف ادیان کے درمیان بھائی چارے کے قیام کے لیے لگائی جائے۔ اور انہیں آپس میں قریب کرتی ہو۔ ہمیں اس ایک آسمانی اور شریف نسبت کو یاد رکھنا چاہیے۔‘‘ بیشک اسلام اہل ایمان کے مابین اخوت قائم کرنے کادرس دیتا ہے۔ اور ان عنصریات کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ محبت اس مٹی کی خاطروطن اور اصنام اور قومیات کی خاطر ہو تو پھر اہل ایمان عزت والے اور کافر ذلیل و رسوا ہونے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ o مَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ﴾ (القلم:۳۵۔۳۶) ’’کیا ہم فرماںبرداروں کا حال مجرموں کا سا بنا دیں گے؟تمہیں کیا ہوگیا ہے یہ تم کیسا حکم لگاتے ہو۔‘‘ اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیِّئَاتِ اَنْ نَّجْعَلَہُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَوَآئً مَّحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾ (الجاثیہ:۲۱) ’’جو لوگ بداعمالیاں کر رہے ہیں کیا وہ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کردیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہوگا یہ کیسا برا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘‘