کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 31
ہیں۔ ہمارا رب ایک ہے اور ہم سبھی ایک ہی نبی کے ماننے والے ہیں۔
اس انٹرویو کے لیے یو ٹیوب پر دیکھیں: مہدی عاکف : لافرق بین السنی و الشیعیی۔
میں کہتا ہوں:ان لوگوں کے ساتھ اتحاد و اتفاق اور قربت کیسے ہوسکتی ہے جو حضرت ابوبکر و عمر اور عائشہ رضی اللہ عنہم پر لعنت کرتے ہوں اور ان کی عزت و آبرو پر حملہ آور ہوتے ہوں۔ اور ام المؤمنین پر وہ الزام دھرتے ہوں جس الزام کی نفی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں کی ہے۔
جب اس جماعت کے مرشدین کا یہ حال ہو تو پھر اس سوچ و فکر اور اس مکتب فکر کے منہج کے مطابق ہم اپنے بچوں کی تربیت کیسے کرسکتے ہیں جن کا منہج سلف صالحین اور ہمارے علمائے کرام اور حکام کے منہج سے کوسوں دور ہو۔ بلکہ واجب ہوتا ہے کہ ان منحرف جماعتوں سے دور رہا جائے۔ اور سلف صالحین کے منہج کی اتباع کی جائے جس پر سلفی حضرات کاربند ہیں۔ اور جس پر یہ ہماری حکومت رشیدہ امام محمد بن سعود اور امام محمد بن عبد الوہاب رحمہما اللہ کے دور سے آج کے دن تک کاربند ہے۔آج کے اس دور میں باقی حکمرانوں کی نسبت سعودی حکمران منہج نبوی اور راہ سلف صالحین کے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ ہم پر واجب ہوتا ہے کہ ان کے دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں مزید خیر و بھلائی کی توفیق دے۔ اور ہم ہر طرح سے ان کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم(اور پھر اس کے بعد سعودی حکمرانوں کی کوشش و محنت کا ثمر)ہے کہ سعودی عرب میں کوئی ایسی قبر نہیں ہے جس کی پرستش کی جاتی ہو۔ اور نہ ہی منحرفین اہل بدعت کو اپنی گمراہیاں پھیلانے اور بدعات کی طرف دعوت دینے کی کوئی اجازت ہے۔
میں کہتا ہوںاور میرے ساتھ دین پر غیرت کھانے والا ہر سنی سلفی یہ بات کہتا ہے کہ: ایران کے رافضی انقلاب کی حمایت اور تائید کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے جیسا کہ اخوان المسلمون کررہے ہیں۔اور اس انقلاب کے خطرات سے بچ کر رہنا واجب ہے۔ اس لیے