کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 27
نے۱۹۷۹۔۳۔۱۶کو نماز جمعہ کے بعد شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی۔‘‘ تلمسانی نے کہا ہے: ’’اب واجب ہوتا ہے کہ شیعہ اور سنی کوایک دوسرے کے قریب لایا جائے۔‘‘(دیکھیں:شمارہ نمبر۱۰۵ جولائی۱۹۸۵بعنوان شیعہ اور اہل سنت) ایسی باتیں اخوان المسلمون نے اردن میں بھی کہی ہیں۔ اتحاد طلبہ کویت نے کویت یونیوورسٹی میں بھی یہ نعرہ بلند کیا ہے۔ لبنان میں اخوان المسلمون کے مرشد فتحی یکن نے اپنی کتاب الموسوعۃ الحرکیۃ میں صفحہ نمبر۲۸۹پر یہی بات کہی ہے۔ اور یہی بات کتاب ابجدیات التصور الحرکیۃ للعمل الاسلامی میں صفحہ ۱۴۸پر بھی کہی گئی ہے۔ اسی طرح کا کلام کتاب الاسلام فکر وحرکۃ و انقلاب میں صفحہ۵۶ پر لکھی گئی ہے۔ محمد غزالی اپنی کتاب: کیف نفہم الاسلام میں صفحہ۱۴۲، ۱۴۳اور۱۴۴پر یہی باتیں کہہ چکا ہے۔حسنالترابی نے بھی یہی بات کہی ہے۔ راشد الغنوشی نے اپنی کتاب الحرکۃ الاسلامیۃ و التحدیث صفحہ۱۷پر یہی بات کہی ہے۔ اور میاں مودودی نے اپنے ایک بیان میں جو کہ مجلہ الدعوہ شمارہ نمبر۱۹میں اگست۱۹۷۹ میں جاری ہوا اس سابقہ قول کی تائید کی ہے۔ پھر اسماعیل شطی نے مجلہ المجتمع شمارہ نمبر۴۸۷میں جو کہ۲۹اپریل۱۹۸۰کو شائع ہوا اس میں علمی خسارہ کے نام سے شائع ہونے والے اپنے بیان میں کہا ہے: ’’ محمد باقر الصدر عصر حاضر میں مذہب جعفری کے ایک نمایاں مرجع ہیں۔‘‘ اسی طرح کی باتیں ایک اور اخبارالصبح الجدید میں بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ اخبار اخوان المسلمون والے جامع خرطوم سے شائع کرتے ہیں۔