کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 19
خزانہ بھر مال دے دیں تو وہ آپ کو واپس کر دیں اور کچھ ایسے ہیں کہ اگر آپ انہیں ایک دینار بھی دے بیٹھیں تو وہ ادا نہ کریں الا یہ کہ تم ہر وقت ان کے سر پر سوار رہو۔‘‘
کاش کہ!ہمارے نوجوان اس سوچ و فکر کو قبول کرتے۔اور بزرگ علما کے گرد جمع ہوجاتے۔ اور ان سے علم و ادب حکمت اور توازن اور وسطیت سیکھتے۔اور حکام پر طعنہ زنی کو ترک کردیتے تو ان مصائب میں گرفتار نہ ہوتے جن میں بہت سارے اسلامی ممالک کے نوجوان مبتلا ہوکر اب جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ کاش کہ یہ لوگ پیش آمدہ جدید مسائل میں فتوی دینے کاکام بڑے علما پر چھوڑ دیتے۔اور خود حکم الٰہی کی پیروی میں انہیں اپنے لیے مقتدی و پیشوا بنالیتے اور جہاں کہیں کوئی اشکال پیش آتا تو ان علمائے کرام سے پوچھ لیتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾(الانبیاء:۷)
’’پس اگر تم لوگ یہ بات نہیں جانتے تو اہل علم (اہل ذکر)سے پوچھ لو۔‘‘
کاش کہ !یہ لوگوں حکمرانوں سے خواہ مخواہ کے جھگڑے بند کردیتے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے کاموں میں ان کی اطاعت کرتے۔
ہمارے اس زمانے میں دشمن ہر طرف سے مسلمانوں پر امڈپڑے ہیں۔فتنے بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔ اس موقع پرنوجوان طبقہ پر واجب ہوتا ہے کہ وہ خود بھی اس سوچ و فکر کے ساتھ منسلک ہوجائیں اور دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دیں۔یہی مکتب فکر عادل و حکیم اور منصف و سلیم ہے۔ یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر چلنے والے انبیا کرام صدیقین شہدا اور صالحین ہیں جن پر اللہ تعالیٰ اپنا انعام فرماتے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں بھی ان ہی لوگوں میں سے بنادے اور ہمیں اپنے دار رحمت میں جمع کردے۔
کاش کہ یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاتے۔ غلو اور فرقہ بندی کو چھوڑ دیتے۔ جو کہ خواہ مخواہ کا پروپگنڈہ اور اشتہار بازی کرکے لوگوں کے سلف صالحین کے صاف اور خالص منہج