کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 17
استنباط کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَ اِذَاجَآئَ ہُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِہٖ وَ لَوْ رَدُّوْہُ اِلٰی الرَّسُوْلِ وَ اِلٰٓی اُوْلِی الْاَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہٗ مِنْہُم ﴾ (النساء:۸۳)
’’اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فورا اڑا دیتے ہیں۔ اور اگر وہ اسے رسول یا آپ نے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿ فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾(الانبیاء: ۷)
’’پس اگر تم لوگ یہ بات نہیں جانتے تو اہل علم(اہل ذکر)سے پوچھ لو۔‘‘
بہت سارے وہ لوگ جو میانہ روی عدل وانصاف اور حقیقت کے چاہنے والے تھے وہ اس سوچ و فکر کے شیدائی بن گئے۔ حقیقت میں یہ منہج اسی منہج کاایک سلسلہ ہے جس کی بنیاد ہمارے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکھ کر گئے تھے۔وہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں جب بھی دو باتوں میں سے کسی ایک کے کرنے کا اختیار ملتا تو آپ آسان بات کو اختیار کرتے جب تک کہ اس میں کوئی گناہ یا قطع رحمی والی بات نہ ہوتی۔ یہی حکمت پر مبنی وہ دعوت ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تعمیل میں ہے:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ﴾(النحل:۱۲۵)
’’ آپ(لوگوں کو)اپنے پروردگار کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دیجئے اور ان سے ایسے طریقہ سے مباحثہ کیجئے جو بہترین ہو۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰی﴾(طہ:۴۴)