کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 16
بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ تھے۔عصر حاضر میں متلاشیان حق کے لیے آپ بلا مبالغہ ایک پیشوا اور مثالی نمونہ تھے۔ اس سوچ و فکر کے لوگ علم و عدل اور امور کے مابین توازن اوراچھائی پر فاعل خیر کی آشیر باد اور برائی پر فاعل شر کی نرمی اور حکمت کے ساتھ حوصلہ شکنی اور تنکیر میں وسطیت پر گامزن رہے۔ آپ کے انصار و مددگار اور متبعین علما کرام و طلبہ بھی اسی معتدل سوچ پرگامزن رہے۔ حتی کہ اس مدرسہ نے ایسے لوگ پیدا کیے جو اسی معتدل سوچ کے حامل تھے۔ اور جو کسی کا حق مارنا نہیں جانتے تھے۔ نہ ہی کسی سے جھگڑا کرتے اور نہ ہی کسی کے فضائل کا انکار کرتے۔ اور نہ ہی کسی کی مدح سرائی میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگتے۔ اور نہ ہی مخالف کی مذمت میں اسے بالکل ذلیل کرکے رکھ دیتے۔ یہی وہ سوچ وفکر تھی جسے عوام الناس میں پذیرائی حاصل ہوئی۔اور حکمران طبقہ جن کی اطاعت کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے انہوں نے بھی اس فکر و نظریہ کو قبول کیا۔ ہمارے ملک سعودی عرب (اللہ اسے شاد آباد رکھے)میں حکمران دوسرے کئی ممالک کے حکمرانوں سے بہت بہتر ہیں۔اور اس طبقہ میں سے بہت سارے متلاشیان حق نے اس نظریہ اور سوچ و فکر کی طرف رجوع کیا ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد ہے۔ وہ اپنے مخلص بندوں میں سے جن کی چاہے مدد فرمائے۔ اس سے بڑھ کر اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی کہ(مشرق سے لیکر مغرب تک )عوام اور خواص سبھی لوگ شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کی مدح میں رطب اللسان ہیں۔علمائے کرام میں سے محمد بن صالح العثیمین صالح الفوزان اورناصر الدین الالبانی رحمہم اللہ جیسے لوگ ابن باز رحمہ اللہ کے مدح سرا ہیں۔ حتی کہ آپ کے مخالفین بھی آپ کے منہج سے واقف کار اور آپ کی فضیلت کے معترف ہیں۔ روئے زمین کے ان علماء کاآپ کی فضیلت پر اجماع آپ کے منہج کے سلیم و معروف ہونے کی دلیل ہے۔ اگر مسلمان فتنوں سے سلامتی چاہتے ہیں تو ان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ ان بزرگ علما کی اتباع کریں جو کہ علم و حلم بصیرت اور رشد کی صفات سے بہرہ ور ہیں۔ اور آیات ربانیہ سے