کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 13
کے دین کو نہیں چھیڑتے تھے۔(مجموع الفتاوی۲؍۱۳۲) نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ بھی فرماتے ہیں: ’’یہ دین کبھی بھی منسوخ نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا ضرور ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اس میں تحریف و تبدیل کردیں بدل ڈالیں جھوٹ شامل کرلیں؛ مسائل کو چھپا لیں؛جس سے حق اور باطل میں التباس پیدا ہوجائے۔تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ رسولوں کے بعدلوگوں میں کسی ایسے افراد کو پیدا کریں جن کی وجہ سے حجت قائم ہو۔ جوتحریف سے دین کی حفاظت اور اہل باطل اور غالیوں کی چیرہ دستیوں سے دین کا دفاع کریں۔پس ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حق کا بول بالا فرمادیں اور باطل کو ملیا میٹ کردیں اگرچہ یہ بات مشرکین کو بری ہی کیوں نہ لگتی ہو۔ پس آسمانوں سے نازل ہونے والی کتابیں اور علمی منثورات خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔ جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ حق و باطل کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ اور لوگوں کے مابین اختلافی مسائل کا فیصلہ ان ہی کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔(مجموع الفتاوی ۱۱؍۴۳۵) نیز آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے: ’’ اہل علم کی طرف سے اہل بدعت اورمنحرفین کے منہج پر خاموشی اختیار کرنا حقیقت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شعار کو معطل کرنا ہے۔یہی تو وہ شعار ہے جس کی وجہ سے اس امت کو باقی تمام امتوں پر فضیلت اور برتری دی گئی ہے۔ اور اس کا ترک کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاؤں اور مصائب کے نازل ہونے کا سبب ہے جیسا کہ بنی اسرائیل کیساتھ ہوا تھا؛ سابقہ کتب: تورات زبور اور انجیل میں ان پر لعنت کی گئی ہے۔اور انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم اور راندہ درگاہ قرار دیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاوٗدَ وَ عِیْسَی