کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 127
چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا دین سر بلندو سرفراز ہو۔ اور شرعی احکام کو نافذ کیا جائے۔ دنیا دین کے تابع ہو۔ لیکن جو کچھ آج کل قوت اور اقتدار کی لالچ میں اسلامی ممالک میں جماعتیں اور تنظیمیں کررہی ہیں اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ جب کہ سلفی حضرات ایسی چیزوں اور فتنوں سے بہت دور رہنے والے ہیں۔ بلکہ وہ امن و امان اور خیرو ایمان کا سبب ہیں۔ایسا ہر گز نہیں جیسا کہ ان کے مخالفین دعوے کرتے اور ان پر الزامات لگاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سرکاری علما ہیں۔یہ بہت بڑی اور بری بات ہے جو ان کے مونہوں سے نکلتی ہے۔ یہ صرف اور صرف جھوٹی باتیں کرتے ہیں۔ یہ اتنے سادہ لوگ نہیں ہیںبلکہ ان کے عقیدہ و عمل اور طریقہ کار میں ان کے اسلاف ہیں جن کے نقش قدم اور علم و فہم پر یہ لوگ گامزن ہیں۔پس اس صورتحال میں واجب ہوتا ہے کہ سلفیوں کو آشیر باد دی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اور مسلمانوں کے مابین سلفیت کی دعوت کو پھیلایا جائے۔ تاکہ لوگ خوش بختی کی زندگی گزار سکیں۔ اور ملکوں میں اسلام کی دعوت عام ہو دہشت گردی اور فتنوں کا خاتمہ ہو۔ ہم تمام پر واجب ہوتا ہے کہ ہم گروہ بندی اور دھڑے بازی کو چھوڑ کر اپنے علما کے نقش قدم پر چلیں۔ اور ہمارے جو بھائی حق بات کی طرف رجوع کرلیں تو ان کی غلطیوں کی اصلاح کریں اور ان کا عذر قبول کریں۔ ہم اہل سنت و الجماعت ہیں جو پیار و محبت اور اجتماعیت کے داعی ہیں ہم ہرگز تفرقہ اور نفرت کے داعی نہیں۔ اور نہ ہی اہل بدعت اور فرقہ پرست ہیں۔ یہ باتیں میری اس چھوٹی سی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ یہ کتاب کبیر الفائدہ ہے۔ میں نے اس کتاب میں کسی بھی داعی اور مصلح کو برے الفاظ میں یاد نہیں کیا بلکہ گروہوں اور دھڑوں کے سربراہوں اور مرشدین کی غلطیوں کودلیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ یہ دلائل خود ان علما کے اقوال سے لیے ہیں جو کہ خود ان کی کتابوں تقاریر اور مقالات میں سے اخذ کیے گئے ہیں۔[آخر میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ :] ﴿ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَ مَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰہِ عَلَیْہِ