کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 126
فجور (یا تکفیر)کے فتوے لگانے سے منع کرتا ہے۔ اسلام ثابت قدم رہنے اور لوگوں کے عذر قبول کرنے؛ اطمینان ؛ شرح صدر اور نیک فال اور خندہ جبینی کی تعلیم دیتا ہے۔ اور جو کچھ گزر چکا اس میں قضا و تقدیر پر راضی رہنے کا حکم دیتا ہے۔خندہ پیشانی سے لوگوں سے ملناہر ایک کو سلام کرنا اچھی طرح سے استقبال اور گفتگو کرناہاتھ ملانا بڑوں کا ادب و احترام کرنا چھوٹوں پر شفقت کرنا پیار و محبت سے پیش آنا۔لوگوں کے ساتھ نرمی سے میل جو ل رکھنا صداقت و حکمت اور عدل و انصاف حلم و تحمل برائی کرنے والوں کو معاف کرنے اور اچھے اخلاق سے پیش آنے کا درس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُمِنَ الْغَیِّ﴾(البقرۃ:۲۵۶)
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں؛ ہدایت گمراہی کے مقابلہ میں بالکل واضح ہو چکی ہے۔‘‘
جو انسان اپنے بھائی کی غلطی معاف کردیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی غلطی معاف کر دیتے ہیں۔یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ تمام گروہ جیسے کہ اخوانی سروری اور دوسرے لوگ فتنوں دہشت گردی اور مظاہرات اورحکام اور علما کے خلاف بغاوت کاسبب بنتے ہیں۔
جب کہ سلفی ایسی چیزوں سے سب لوگوں سے زیادہ دور رہنے والے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا بنیادی اصول پسندیدگی اور نا پسندیدگی میں حکمرانوں کی اطاعت گزاری ہے۔ بھلے حکمران ان پر ظلم بھی کریں اور ان پر جور و جبر کرتے ہوئے ان کا مال و اسباب بھی چھین لیں۔ جیساکہ نصوص میں آیا ہے۔اس لیے حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے اور نوجوانوں کو ان کے خلاف بھڑکانے میں بہت بڑا نقصان اور خطرناک فتنہ ہے۔
ذرا دیکھیں تو سہی !ان جماعتوں اور گروہوں نے اسلامی ممالک میں اللہ تعالیٰ کی سر زمین میں کتنا فتنہ و فساد مچایا۔اللہ تعالیٰ تو کبھی بھی فساد برپا کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنے کا حق ہر ایک کو حاصل نہیں۔یہ صرف اہل حل و عقد کا کام ہے۔ وہ اہل حل و عقد جو کہ علماء دین؛ فوجی قیادت؛ اہل رائے تجربہ کار لوگ اور عوام کی مصلحتوں اور خیر و شر کے جاننے والے ہوتے ہیں۔ اور پھر اس کا ہدف بھی صرف یہ ہونا