کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 12
بھی ایک اجر ہے۔ اور اس کی غلطی اللہ تعالیٰ کے ہاں معاف ہے........کسی ایک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بعض علما کے اقوال کو اپنا شعار بنالے۔ اوران کی اتباع کو لوگوں پر واجب کردے اور ان کے قول کے برعکس سنت میں جوکچھ بھی واضح ہو اس کی اتباع سے منع کرتا پھرے۔‘‘ (مجموع الفتاوی۲۵۲؍۲۲) نیز شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ بھی ارشاد فرماتے ہیں: ’’ ہر اس انسان کو سزا دینا واجب ہوجاتا ہے جو اہل بدعت فرقوں کی طرف اپنی نسبت کرتا ہو یا پھر ان کا دفاع کرتا ہو۔ یا ان کی تعریف اور ثنا خوانی کرتا ہو۔ یا پھر ان کی کتابوں کی تعظیم اور بڑائی بیان کرتا ہو۔ یا پھر اس کے متعلق معلوم ہوجائے کہ وہ اہل بدعت کا معاون و مددگار ہے۔ یا ان کی برائی بیان کرنے کو نا پسند کرتا ہے۔یا پھر ان کی طرف سے عذر پیش کرتا ہے کہ اس کلام کا اسے کوئی پتہ نہیں کہ یہ کیا چیز ہے ....؟ اس طرح کے عذر یا تو کوئی جاہل پیش کرسکتا ہے یا پھر منافق۔‘‘ بلکہ ہر انسان کے لیے عقوبت واجب ہوجاتی ہے جسے ان اہل بدعت اور گمراہ فرقوں کے احوال و افراد کا علم ہو او رپھر وہ ان کے خلاف تعاون نہ کرے۔ اس لیے کہ ان لوگوں کی باز پرس کرنا سب سے بڑا واجب ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ عوام الناس علما حکام اور امرا کے نہ صرف اخلاق بگاڑتے ہیں بلکہ ان کے دین اور عقل کو بھی تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اور روئے زمین پر فساد پھیلاتے ہیں۔ لوگوں کو اللہ کی راہ سے دور کرتے اور روکتے ہیں۔ پس مسلمانوں کے دین میں ان کی طرف سے ہونے والا یہ نقصان اس دنیاوی نقصان سے بہت بڑا ہے۔جس میں لوگوں کا دین تو چھوڑ دیا جاتا ہے مگر ان کی دنیا لے لی جاتی ہے۔ جیسے راستے کے ڈاکو کرتے ہیں۔ اوران سے وہ تاتاری خونخوار اچھے تھے جو لوگوں سے مال لے لیتے تھے مگر ان