کتاب: اسلاف کا راستہ - صفحہ 10
جو اس قابل ہے کہ اسے نور کے صحیفوں پر سونے کے پانی سے لکھا جائے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’پس ائمہ دین وہ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم راہ پر کاربند ہیں۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں یک جان اور متفق تھے۔ اگرچہ ان کے مابین شریعت کے بعض فروعی مسائل جیسے طہارت اور نمازکے مسائل اور حج اور طلاق اور میراث کے بعض مسائل میں اختلاف بھی تھا۔ مگر اس کے باوجود کسی مسئلہ پر ان کا اجماع ایک قطعی حجت ہے۔ پس جو کوئی ائمہ دین میں سے کسی ایک خاص شخصیت کے لیے تعصب برتتا ہے وہ بالکل اسی شخص کی طرح ہے جو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ کر کسی ایک صحابی کے لیے تعصب برتتا ہے۔ جیسا کہ رافضی خلفائے ثلاثہ کو چھوڑ کر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام پر تعصب کا اظہار کرتے ہیں۔ اورجیسا کہ خوارج جو کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کی شخصیات پر جرح کرتے ہیں۔ یہ ان اہل بدعت اور گمراہ خواہشات کے پجاری لوگوں کا راستہ ہے جن کا مذموم اور شریعت الٰہی سے خارج ہونا اور منہج محمدی سے دور ہونا کتاب و سنت اور اجماع امت کی روشنی میں ثابت ہوچکا ہے۔ پس جو کوئی ائمہ کرام رحمہم اللہ میں سے کسی ایک کے لیے تعصب رکھتا ہے اس میں ان لوگوں کو مشابہت پائی جاتی ہے۔بھلے وہ امام مالک رحمہ اللہ کے مذہب کے لیے تعصب رکھے یا پھر امام ابو حنیفہ یا امام شافعی یا امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کے لیے یا پھرکسی دوسرے کے لیے۔پھر یہ کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے تعصب رکھنے والے کی غایت اور منتہا یہ ہے کہ وہ حقیقت میں علم اوردین میں ان لوگوں کے صحیح مقام ومرتبہ اور قدر و منزلت سے جاہل ہے۔اور ایسے ہی دوسرے ائمہ کی قدرو منزلت سے بھی جاہل اور لاعلم ہے۔ پس اس طرح یہ انسان جاہل بھی ہے اور ظالم بھی۔ جب کہ اللہ تعالیٰ علم اور عدل کا حکم دیتے ہیں اور جہالت اور ظلم سے منع کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: