کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 51
رجوع کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ (61)
3۔ حکمرانوں کی مطلق تکفیر میں ادارہ ایقاظ کے بقول وہ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کی اس رائے کے قائل ہیں کہ جس کے مطابق مجرد غیر شرعی وضعی قوانین کے مطابق فیصلے کرنا یا ان کا نفاذ ہی ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بن جاتا ہے ‘ چاہے ایسا کرنے والا اس کو حلال یا جائز سمجھتاہو یا نہ۔
4۔ ادار ہ ’ایقاظ‘ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ کبار سعودی علماء کے مقلد ہیں اور ان کی تقلید کے داعی بھی ہیں ۔اس مکتب فکر کی نمایاں ترجمانhttp://www.eeqaz.com/ نامی ویب سائیٹ ہے جس پر اس فکر سے متعلق بہت زیادہ مواد اور لٹریچرموجود ہے۔
جہاں تک ادارہ ایقاظ کی پہلی بات کا تعلق ہے تو شرعی دلائل اور عقل و منطق کی روشنی میں اصل موقف دو ہی بنتے ہیں ۔ یا تو وہ جسے ادارہ ’موحدین‘ پیش کر رہا ہے کہ اگر کافر ہیں تو حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کے ہر قسم کے معاونین بھی کافر قرار پاتے ہیں کیونکہ جس طرح غیر شرعی قوانین وضع کرنے والے اور ان کے مطابق فیصلے کرنے والے طاغوت ہیں تو ان عدالتوں سے فیصلے لینے والے عوام بھی’تحاکم إلی الطاغوت‘ میں شامل ہونے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں ؟ یا پھردوسرا موقف سعودی علماء کا ہے جو حکمرانوں اورعوام الناس دونوں کو فاسق و فاجر شمار کرتے ہیں اور سعودی سلفی علماء کے اس موقف کو ادارہ ’اصلی اہل سنت‘ پیش کرر ہا ہے ۔ جہاں تک تیسرے موقف کا تعلق ہے کہ حکمرانوں اورعوام الناس میں فرق کیا جائے اور عوام الناس کو تکفیر سے بچایا جائے تو یہ عام سوجھ بوجھ سے بالاتر بات ہے۔ جب اللہ کی شریعت کے بالمقابل وضعی قوانین بنانے والے حکمران کافر ہیں تو ان وضعی قوانین کو پاس کرنے والی اسمبلیاں ‘ ان اسمبلیوں کو منتخب کرنے والے عوام الناس‘ ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ کرنے والی عدالتیں ‘ ان وضعی قوانین کو پڑھنے پڑھانے والے لاء کے طلبا واساتذہ ‘ان وضعی قوانین کے مطابق فیصلہ لینے اور کروانے والے عوام اور وکلا ‘ ان وضعی قوانین کا نفاذ کرنے والے سکیورٹی فورسز کے ادارے اوران وضعی قوانین کی حفاظت کی خاطر جان قربان کرنے والی افواج پاکستان کیسے مسلمان ہو سکتی ہیں ؟اس موقف کا عدم توازن اور عدم اعتدال صاف ظاہر ہے۔