کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 49
علمائے سوء ، درباری مولوی، فوج،پولیس، وکلاء اور پوری حکومتی کابینہ کے متعین کفر اور ان کے واجب القتل ہونے کے شریعت سے دلائل دیں گے ۔‘‘ (57) ان کے علاوہ اس موضوع پر بیسیوں مترجم کتب، مقالات اور کتابچے اس موقف کے اثبات میں http://muwahideen.ds4a.com/ ویب سائیٹ پر ان پیج فارمیٹ میں موجود ہیں ۔ اس موقف کو معروف معاصر علماء کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ توحید حاکمیت کی بنیاد پر تکفیر میں غلو اور ردعمل اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایسے تکفیرکے قائل گروہوں کے ہاں توحید الوہیت یا توحید اسماء وصفات کی اہمیت بہت زیادہ نظرانداز ہوتی ہے۔ کتاب و سنت جو توحید الوہیت اور اسماء و صفات سے بھرے پڑے ہیں ‘ ان کے بیان یا ان کی بنیاد پر تکفیر کے بالمقابل توحید حاکمیت کی ایک مطلق آیت کو مسلمانوں کی تکفیر کی بنیاد بنانے کو ردعمل نہ کہا جائے تو کیا کہا جا سکتا ہے؟ اگرتو تکفیر کی معاصر تحریک ظلم کے ردعمل کی تحریک نہ ہوتی اور شعوری سطح پر واقعتاصحیح معنوں میں اسلامی عقیدے کی وضاحت کی تحریک ہوتی تو اس تحریک میں توحید کی اقسام کی بنیاد پر تکفیر کے مسئلے میں وہ توازن واعتدال قائم ہوتا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی ان قسموں کے بیان میں کتاب وسنت میں قائم کیا ہے۔ تکفیر کے قائل معاصر سلفی نوجوان جو آج تک توحید اسماء وصفات کی بناء پر معتزلہ‘ جہمیہ‘ اشاعرہ‘صوفیہ اور ماتریدیہ کا رد کرتے رہے ہیں اور انہیں گمراہ فرقوں میں شمار کرتے رہے ہیں ‘ آج انہی افکار کے حامل اشخاص کو صرف اس وجہ سے امامت کے مرتبے پر فائز کرتے ہیں کہ وہ توحید حاکمیت کی بنا پر حکمرانوں اور مسلم معاشروں کی تکفیر کے قائدین ہیں ۔ یہ امر واقعہ ہے کہ توحید حاکمیت کی بناء پر تکفیر کی تحریک نے توحید الوہیت کہ جس سے قرآن بھرا پڑا ہے‘ کو کھڈے لائن لگا دیا ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ توحید حاکمیت کی بنا پر مسلمان حکمرانوں کی تکفیر ہی’ موحد‘ ہونے یا نہ ہونے کا واحد معیار بن چکا ہے۔ اگرمقصود ومطلوب اسلامی عقیدے ہیکی وضاحت ہے تو توحید کے بیان میں یہ عدم توازن کیوں ؟ توحید کی ایک نئی قسم کی بنیاد پر تو آدھی امت کی تکفیر کر دی جائے لیکن سلف صالحین کی کتاب وسنت سے ماخوذ شدہ تقسیم توحید ربوبیت‘ توحید الوہیت اور توحید اسماء و صفات کا نام آپ کی تحریروں میں ڈھونڈنا پڑے!