کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 46
ہیں ۔(53) اہل الحدیث کی بھی نمائندہ جماعتیں جماعۃ الدعوۃ اور جمعیت اہل حدیث وغیرہ طالبان پاکستان کے منہج کو درست نہیں سمجھتی ہیں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک ہماری جہادی تحریکوں کی فکری وعملی جدوجہد کا رخ کفار ‘ مشرکین اور یہود و ہنود کے خلاف ہو گا تو ہمیں تمام مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوگی اور اگر ہم نے تکفیر اور خروج کے مسئلے میں مسلمان حکمرانوں یا مسلم معاشروں ہی کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور اپنی توپوں کا رخ ان کی طرف پھیر دیا تو عوا م الناس تو کجا‘ ہمیں مذہبی حلقوں سے حمایت ملنی بھی دشوار ہو جائے گی اور اس صورت میں مذہبی جذبہ اور رجحان رکھنے والوں کے مابین پیدا ہونے والے شدید اختلافات سے سوائے انتشارِ ذہنی اور طوائف الملوکی کے اور کچھ حاصل نہ ہو گا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ جب پاکستانی حکمرانوں اور عدلیہ کی تکفیر کی بات آتی ہے تو دو سلفی بھائیوں میں اتفاق ناممکن ہو جاتا ہے۔(54) ایسے مسئلے کو چھیڑنے سے دین کی کیا خدمت ہو گی کہ جس میں دو سلفی بھائی بھی متفق نہ ہو سکیں ۔ اور ابھی ظالم حکمرانوں کی تکفیر کے مسئلے کو کچھ آگے بڑھنے دیں ‘مفتیان کرام کا جو اتوار بازار اس تکفیرکے نتیجے میں سامنے آئے گا ‘ اس کا تصور بھی محال ہے۔
پاکستان میں تکفیر کی تحریک
بعض سلفی علماء کا کہنا ہے کہ تکفیر کی عالمی تحریک کی بنیاد مولانا مودودی رحمہ اللہ کے توحید حاکمیت کے بارے غلط تصورات بنے ہیں اگرچہ مولانا نے کسی حکمران کی تکفیر نہیں کی ہے اور نہ وہ اس کے قائل تھے۔ان کے بقول مولانا مودودی رحمہ اللہ نے رب‘ دین‘ عبادت اور الٰہ جیسی بنیادی اصطلاحات کی حکومت ‘ سلطنت اور قانون سازی جیسے الفاظ کے ساتھ تشریح فرمائی اور ان بنیادی دینی اصطلاحات کو توحید حاکمیت کے گرداگرد ہی گھماتے پھراتے رہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ سے اس فکر کو سید قطب رحمہ اللہ نے لیا جنہوں نے اس میں مزید غلو پیدا کیا۔ اور سید قطب رحمہ اللہ سے یہ فکر ’جماعۃ التکفیر‘ اور ’القاعدہ‘ نے لی۔ پھر ان دو جماعتوں سے یہ فکر پورے عالم اسلام میں پھیل گیا۔ (55)
بہر حال صورت حال جو بھی ہو پاکستان میں تکفیر کی باقاعدہ تحریک کا آغاز سوات‘ وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے باشندوں پر حکومت ِپاکستان کے ظلم و ستم کے ردعمل