کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 45
والے سعودی نوجوانوں کی کثیر تعداد کو بھی وہاں جانے سے روکا اور سعودی عرب میں ہی امریکہ کے خلاف ایک اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی اور ایسے افکار اور اعمال سے نوجوانوں کو منع کیا جن سے ان کی نظر میں مفاسد پیدا ہو سکتے تھے۔ تفصیل کے لیے درج ذیل ویب سائیٹس پر دیے گئے مضامین کا مطالعہ کریں ۔(52) معاصر جہادی تحریکوں میں طالبان افغانستان کا منہج ہمارے نزدیک حکمت عملی اور مومنانہ فراست کا بہترین نمونہ ہے کہ جس کے مطابق اس وقت علماء اور اسلامی تحریکوں کو امریکہ کے خلاف اپنی جدوجہد کو منظم کرنا چاہیے اور فاسق و ظالم مسلمان حکمرانوں کے خلاف نت نئے محاذ کھول کر اپنی قوت کو منتشر اور اپنے حقیقی دشمن یہود و ہنود کو مضبوط نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان میں جہادی کارروائیوں کے بارے طالبان افغانستان اور القاعدہ کے منہج کا فرق بالکل واضح ہے۔ طالبان افغانستان‘ پاکستان میں کوئی نیا محاذ کھولنے کے خلاف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی اور افواج پاکستان کی طرف سے طالبان افغانستان کو امریکہ کے خلاف اسی طرح مسلسل حمایت اور سپورٹ جاری ہے جیسا کہ کشمیر میں انڈیا کے خلاف تھی ۔ شیخ سفر الحوالی اور شیخ سلمان العودۃحفظہما اللہ نے بھی در حقیقت جہاد کی مخالفت نہیں کی بلکہ جہاد کے مسئلہ میں طالبان افغانستان کی پالیسی کو اپنایا ہے کہ مسلمانوں کو حکمت عملی اور مصلحت کے تحت اپنے اپنے ممالک اور خطوں میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف احتجاجی تحریک چلانی چاہیے اور یہی وقت کا ایک اہم تقاضا ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سب دشمنوں کے خلاف ایک ساتھ محاذ نہیں کھولے تھے ‘ اگرچہ وہ کافر بھی تھے بلکہ آپ نے پہلے مشرکین مکہ سے معاہدہ [صلح حدیبیہ]کرکے یہود کی خبر لی اور ان کی طاقت کو منتشر کیااور اس کے بعدان کی باری لگائی۔ طالبان افغانستان کے منہج اور حکمت عملی کے برعکس القاعدہ نے جب سعودی حکومت کے خلاف محاذ کھولا تو سارے کبار سلفی علماء ان کے خلاف ہو گئے۔ اسی طرح جب طالبان پاکستان نے امریکہ کی بجائے پاکستانی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کیا تو بریلوی علماء تو شروع دن سے ہی ان کے خلاف ہو گئے ۔ اب ۱۵۰ کبار دیوبندی علماء کا فتویٰ بھی آگیا ہے کہ علمائے دیوبند بھی پاکستانی حکومت کے خلاف عسکری جدوجہد کے قائل نہیں