کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 43
مسألۃ أو عشرۃ أو مئۃ أو أقل أو أکثر فما دام الانسان یعتبر نفسہ أنہ مخطیء وأنہ فعل أمرا منکرا وأنہ فعل معصیۃ وأنہ خائف من الذنب فھذا کفر دون کفر وأما مع الاستحلال ولو کان فی مسألۃ واحدۃ وھو یستحل فیھا الحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ ویعتبرذلک حلالا فإنہ یکون کفرا أکبر۔‘‘ (49)
’’ سوال: کیا شریعت اسلامیہ کی جگہ وضعی قوانین کا نفاذ بنفسہٖ کفر ہے؟ یا اس کے کفر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انسان دلی طور پر اس فعل کو حلال سمجھتا اور اس کے جواز کا عقیدہ رکھتا ہو؟ کیا ایک مرتبہ ’ما أنزل اللّٰہ ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے اور وضعی قوانین کو مستقل و عمومی قانون بنا لینے میں کوئی فرق ہے جبکہ قانون ساز اس قانون سازی کے جائز نہ ہونے کا بھی عقیدہ رکھتا ہو؟جواب : یہ بات ظاہر ہے کہ کسی ایک مقدمہ یا دس یا سو یا اس سے زائد یا کم میں فیصلہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب تک انسان یہ سمجھتا ہو کہ وہ خطا کار ہے اور اس نے ایک برا اور نافرمانی کا کام کیا ہے اور اسے اپنے گناہ کا خوف بھی لاحق ہوتو یہ کفر اصغر ہے اور اگر وہ اپنے اس فعل کو حلال سمجھتا ہو‘ چاہے ایک مقدمہ میں ہی کیوں نہ ہو اور وہ اس مقدمہ میں ’ماأنزل اللّٰہ ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کو حلال سمجھتا ہو تو یہ کفر اکبر ہو گا۔‘‘
شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن حمادۃ الجبرین حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
’’أن یضع تشریعا أو قانونا مخالفا لما جاء فی کتاب اللّٰہ وسنۃ رسولہ ویحکم بہ معتقدا جواز الحکم بھذا القانون أو معتقدا أن ھذا القانون خیر من حکم اللّٰہ أومثلہ فھذا شرک مخرج من الملۃ۔‘‘ (50)
’’ یہ کہ حکمران کوئی ایسی قانون سازی کرے جو کتاب اللہ اور سنت رسول کے مخالف ہو اور وہ اس قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کو عقیدہ کے اعتبار سے جائز سمجھتا ہو یا اس قانون کو اپنے عقیدہ میں اللہ کے حکم سے بہتر خیال کرتا ہو یا اس کے برابر سمجھتا ہو تو یہ ایسا شرک ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے۔‘‘