کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 42
جو شخص اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا تو وہ کافر ہے ۔ بعض مفسرین نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس آیت میں کفر سے مراد کفر اکبر سے چھوٹا کفرہے کیونکہ ان مفسرین کے فہم کے مطابق اس آیت میں ’ ما أنزل اللّٰہ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے سے مراد اس فیصلہ کو حلال نہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے لیکن اہل علم کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ جو حکمران اس فیصلہ کو حلال سمجھتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔‘‘ شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فالحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ من أعمال أھل الکفر وقد یکون کفر ینقل عن الملۃ وذلک إذا اعتقد حلہ وجوازہ وقد یکون کبیرۃ من کبائر الذنوب ومن أعمال الکفر قد استحق من فعلہ العذاب الشدید۔۔۔قال ابن عباس کفر دون کفر وظلم دون ظلم وفسق دون فسق، فھو ظلم أکبر عند استحلالہ وعظیمۃ کبیرۃ عند فعلہ غیر مستحل لہ۔‘‘ (48) ’’ما أنزل اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرناکفریہ فعل ہے اور بعض صورتوں میں یہ دائرہ اسلام سے اخراج کا باعث بھی بنتا ہے اور یہ اس صورت میں ہے جب کوئی شخص اپنے اس فعل کو حلال اور جائز سمجھتا ہو۔ اور بعض اوقات یہ فعل ایک کبیرہ گناہ اور کفریہ فعل ہوتا ہے جس کا فاعل شدید عذاب کا مستحق ہے۔۔۔عبد اللہ بن عباس t کا قول ہے کہ یہ ’کفر دون کفر ‘ہے اور’ ظلم دون ظلم‘ ہے اور ’فسق دون فسق‘ ہے۔ پس اگر اس شخص نے اپنے اس فعل کو حلال سمجھا تو یہ کفر اکبر ہے اور اگر اس فعل کو حلال نہ سمجھا تو اس وقت یہ ایک کبیرہ گناہ ہے۔‘‘ شیخ عبد المحسن العبادحفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ھل استبدال الشریعۃ الإسلامیۃ بالقوانین الوضعیۃ کفر فی ذاتہ؟ أم یحتاج إلی الاستحلال القلبی والاعتقاد بجواز ذلک؟ وھل ھناک فرق فی الحکم مرۃ بغیرما أنزل اللّٰہ وجعل القوانین تشریعا عاما مع اعتقاد عدم جواز ذلک؟ الجواب : یبدو أنہ لا فرق بین الحکم فی