کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 41
اسے بطور قانون اور دستور نافذ کر دیا تاکہ لوگ اس پر عمل کریں تو ایسے حکمران کے بارے بھی ہمارا عقیدہ یہی ہے کہ وہ اس مسئلے میں ظالم ہے اور حق بات کہ جس کے ساتھ کتاب و سنت وارد ہوئے ہیں ‘ یہ ہے کہ اس حکمران کی بھی ہم تکفیر نہیں کر سکتے ہیں ۔ ہم تو صرف اسی حکمران کی تکفیر کریں گے جو ’ما أنزل اللہ‘ کے غیر کے مطابق اس عقیدے کے ساتھ فیصلہ کرے کہ لوگوں کا’ما أنزل اللہ‘ کے غیر پر چلنا اللہ کے حکم پر چلنے سے بہتر ہے یا وہ اللہ کے حکم کے برابر ہے ۔ ایسا حکمران بلاشبہ کافر ہے کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے قول’ کیا اللہ تعالیٰ سب حاکموں سے بڑھ کر حاکم نہیں ہے ‘ اور ’ کیا وہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں اور اللہ سے بہتر کس کا فیصلہ ہوسکتا ہے ایسی قوم کے لیے جو یقین رکھتی ہے‘ کا انکار کر تا ہے۔‘‘ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کے پڑپوتے شیخ عبد اللطیف بن عبد الرحمن آل الشیخ حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’وإنما یحرم إذا کان المستند إلی الشریعۃ باطلۃ تخالف الکتاب والسنۃ کأحکام الیونان والإفرنج والتتر وقوانینھم التی مصدرھا آراؤھم وأھواؤھم وکذلک البادیۃ وعاداتھم الجاریۃ۔ فمن استحل الحکم بھذا فی الدماء أو غیرھا فھو کافر قال تعالی : ومن لم یحکم بما أنزل اللّٰہ فأولئک ھم الکفرون۔ وھذہ الآیۃ ذکر فیھا بعض المفسرین : أن الکفر المراد ھنا: کفر دون الکفر الأکبر لأنھم فھموا أنھا تتناول من حکم بغیر ما أنزل اللّٰہ وھو غیر مستحل لذک لکنھم لا ینازعون فی عمومھا للمستحل وأن کفرہ مخرج عن الملۃ۔‘‘ (47) ’’ اگر کتاب و سنت کے مخالف باطل احکامات مثلاًیونانی‘ انگریزی اور تاتاری قوانین کہ جن کا منبع و سر چشمہ اہل باطل کی خواہشات اور آراء ہوتی ہیں ‘ کو شرعی مرجع بنا لیا جائے تو یہ صرف ایک حرام کام ہے۔ اسی طرح کا معاملہ قبائلی جرگوں اور ان کے رسوم و رواج [کے مطابق فیصلوں ]کا بھی ہے[اور وہ بھی ایک حرام فعل ہے]۔ پس جس نے ان باطل قوانین کے مطابق قتل و غارت اور دیگر مسائل میں فیصلہ کرنے کو حلال سمجھا تو ایسا شخص کافر ہے جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: