کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 40
وھم یرونہ عالما کبیرا فیحصل بذلک مخالفۃ وإذا کان یعلم الشرع ولکنہ حکم بھذا أو شرع ھذا وجعلہ دستورا یمشی الناس علیہ نعتقد أنہ ظالم فی ذلک وللحق الذی جاء فی الکتاب والسنۃ أننا لا نستطیع أن نکفر ھذا وإنما نکفر من یری أن الحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ أولی أن یکون الناس علیہ أو مثل حکم اللّٰہ عزوجل فإن ھذا کافر لأنہ یکذب بقولہ تعالی ألیس اللّٰہ بأحکم الحاکمین وقولہ تعالی أفحکم الجاھلیۃ یبغون ومن أحسن من اللّٰہ حکما لقوم یوقنون۔‘‘ (46)
’’ سوال: اگر کوئی حاکم کتاب و سنت کے مخالف کسی قانون کو نافذ کر دیتا ہے لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ حق وہی ہے جو کتاب وسنت میں ہے اور اس مخالف ِ کتاب و سنت قانون کو اپنی خواہش نفس یا کئی اور وجوہات کی بنا پر نافذ کرتا ہے تو کیا اپنے اس فعل سے وہ کافر ہو جائے گا یا یہ لازم ہے کہ اس مسئلے میں اس پر کفر کا فتویٰ لگانے کے لیے اس کا عقیدہ دیکھا جائے ؟ جواب: ’ما أنزل اللّٰہ ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کرنے کی تین قسمیں یعنی کفر‘ ظلم اور فسق و فجور قرآن میں بیان کی گئی ہیں اور ان قسموں کا اطلاق اس حکم کے اسباب کے اعتبار سے بدلتا رہے گا۔ پس اگر کسی شخص نے اپنی خواہش نفس کے تحت ’ما أنزل اللہ‘ کے غیر کے مطابق فیصلہ کیا جبکہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کا فیصلہ حق ہے تو ایسے شخص کی تکفیر نہ ہو گی اور یہ ظالم اور فاسق کے مابین کسی رتبے پر ہو گا۔ اور اگر کوئی حکمران’ ما أنزل اللّٰہ ‘ کے غیر کو تشریع عام [ عمومی قانون] کے طور پر نافذ کرتا ہے تا کہ امت مسلمہ اس پر عمل کرے اور ایسا وہ اس لیے کرتا ہے کہ اسے اس میں کوئی مصلحت دکھائی دیتی ہے حالانکہ اصل حقیقت اس سے پوشیدہ ہوتی ہے تو ایسے حکمران کی بھی تکفیر نہ ہو گی کیونکہ اکثر حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شرعی احکام سے ناواقف ہوتے ہیں اور انہیں ایسے جہلا کا قرب حاصل ہوتا ہے جنہیں وہ بہت بڑا عالم سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ پس اس طرح وہ شریعت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی حکمران شریعت کو جانتا ہو لیکن اس نے کسی وضعی قانون کے مطابق فیصلہ کر دیا یا