کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 38
سامنے سر تسلیم خم نہ کرتی ہو اور اللہ کے حکم پرراضی نہ ہو تو وہ مذکورہ بالا محکم آیات کی روشنی میں جاہلی ‘ کافر ‘ ظالم اور فاسق ریاست ہے ۔‘‘ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس فتویٰ میں ’’ترضاہ‘‘کے الفاظ اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ شیخ بن باز رحمہ اللہ اس مسلمان ریاست کی تکفیر کرتے ہیں جو غیر اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کو جائز اور حلال سمجھتی ہو اور یہی قول بقیہ سلفی علماء کا بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی ریاست یا اس کے نظام کی تکفیر اور اشخاص کی تکفیر میں بہت فرق ہے۔ ریاست یا نظام کی تکفیر میں اصل مقصود اس ریاست یا نظام سے تحذیر ہوتی ہے جبکہ اشخاص کی تکفیر میں مطلوب دین اسلام کی حفاظت ہے۔ شیخ بن باز رحمہ اللہ کے تلامذہ نے بھی ان کی طرف اسی موقف کی نسبت کی ہے جسے ہم ان کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں ۔ شیخ عبد اللہ بن عبد العزیز بن حمادۃ الجبرین حفظہ اللہ فرماتے ہیں : ’’فقد ذھب بعض أھل العلم إلی أن مجرد تحکیم قانون أو نظام عام مخالف لشرع اللّٰہ تعالی کفر مخرج من الملۃ ولو لم یصحبہ اعتقاد أن ھذا القانون أفضل من شرع اللّٰہ أو مثلہ أو یجوز الحکم بہ۔۔۔وقد رجح شیخای الشیخ عبد العزیز بن باز والشیخ ابن عثیمین رحمھما اللّٰہ القول الأول وھو أن الحکم بغیر ما أنزل اللّٰہ لا یکون کفرا مخرجا من الملۃ مطلقا حتی یصحبہ اعتقاد جواز الحکم بہ أو أنہ أفضل من حکم اللّٰہ أو مثلہ أو أی مکفر آخر۔‘‘(44) ’’بعض اہل علم کا قول یہ ہے کہ مجرد کسی خلاف ِشرع وضعی قانون یا نظام عام سے فیصلہ کرنا ایسا کفر ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہے اگرچہ اس شخص کا یہ اعتقاد نہ بھی ہو کہ وضعی قانون اللہ کی شریعت سے افضل یا اس کے برابر ہے یا اس سے فیصلہ کرنا جائز ہے ۔۔۔ ہمارے شیخین ‘ شیخ بن باز اور شیخ بن عثیمین; نے اس مسئلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مطلق طور پر اللہ کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ سے فیصلہ کرنا ایسا کفر نہیں ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث ہو یہاں تک کہ وہ فیصلہ کرنے والا اس کے مطابق فیصلے کو جائز سمجھتا ہو یا