کتاب: عصرحاضر میں تکفیر، خروج ،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج - صفحہ 36
موجود ہے کہ اگر کوئی حکمران یا جج ساری عمر غیر اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے کرتا رہاہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ غیراللہ کے قانون کو کتاب وسنت سے بہتر سمجھتا ہے۔ اس کے عمل کا یہ تسلسل اس کے عقیدے کی التزامی دلیل کیسے بن گیا ‘ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے؟
مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ اور سلفی علماء کی رائے
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے فتویٰ کے بارے ان مذکورہ بالا پانچ آراء میں سے دوسری رائے راجح ہے۔ شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا رسالہ تحکیم ۱۳۸۰ھ میں پہلی دفعہ شائع ہوا جبکہ شیخ کا دوسرا فتویٰ محرم ۱۳۸۵ھ کا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہی شیخ کاآخری قو ل ہے اور یہی جمیع اہل سنت کا بھی موقف ہے کہ مجرد وضعی قانون کے مطابق فیصلہ یا اس کا نفاذ خارج عن الملۃ نہیں ہے إلا یہ کہ اس کے ساتھ استحلال قلبی یا جحود بھی ہو۔
دیگر سلفی اہل علم کا بھی یہی قول ہے ۔ علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وخلاصۃ الکلام: لا بد من معرفۃ أن الکفر کالفسق والظلم ینقسم إلی قسمین: کفر وفسق وظلم یخرج من الملۃ وکل ذلک یعود إلی الاستحلال القلبی وآخر لا یخرج من الملۃ یعود إلی الاستحلال العملی۔‘‘ (41)
’’ہماری اس طویل بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ جان لینا چاہیے کہ کفر بھی ظلم اور فسق کی مانند دو طرح کا ہے ۔ ایک کفر‘ ظلم اور فسق و فجور تو وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے اخراج کا باعث بنتا ہے اور یہ وہ کفر ‘ ظلم یا فسق ہے جس میں کوئی کفر‘ ظلم یا فسق کا ارتکاب اسے دل سے حلال سمجھتے ہوئے کرے اور دوسرا کفر‘ ظلم یا فسق وہ ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا اور یہ وہ ہے جس کا مرتکب عملاً اس کفر‘ ظلم یا فسق کو حلال سمجھ رہا ہو [نہ کہ قلبی طور پر]۔ ‘‘
سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’فقد اطلعت علی الجواب المفید الذی تفضل بہ صاحب الفضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین الألبانی وفقہ اللّٰہ المنشور فی صحیفۃ